امریکا کی ایک وفاقی عدالت میں دھماکا خیز بیان حلفی میں ایوان نمائندگان کی رکن الہان عمر پر قطر سے رشوت لینے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔اس کے بدلے میں انھوں نے حساس انٹیلی جنس معلومات قطر کے حوالے کی تھیں اور امریکی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) کو اس تمام معاملے کی تحقیقات کرنی چاہیے۔ اگر یہ الزامات درست ہیں تو پھر یہ امریکا اور ہر اس شخص کے لیے ایک انتباہی گھنٹی ہونی چاہئے جس کو دنیا پرامریکا کی پالیسی کے اثرات کی فکر ہے۔الاخوان المسلمون کے سرپرستوں کو اقتدار تک رسائی دینے کا معاملہ ایسا غیر اہم نہیں ہے کہ اس پر محض ہنسا جاسکے بلکہ اس کی قانون کے تحت مکمل تحقیقات کی جانی چاہیے۔ کینیڈا کی معروف کاروباری شخصیت ایلن بِندر نے گذشتہ ماہ اپنے بیان حلفی میں کہا تھا کہ قطر کے ماسٹر جاسوس محمد المسند نے امریکا بھر میں سیاست دانوں اور صحافیوں کو رشوت کی چاٹ لگائی تھی اورانھیں غلط معلومات اور پروپیگنڈے کی ایک بڑی مہم پر لگایا تھا۔بیانِ حلفی میں ایوان نمایندگان کی رکن الہان عمر کو ’’تاج کا ہیرا‘‘ قرار دیا گیا ہے۔انھوں نے امریکا کے دوسرے سیاست دانوں کو بھی قطر کی اس اسکیم کے لیے بھرتی کرنے میں فعال کردار ادا کیا تھا۔ ایک خاص سطح پر ’’خراب سیاست‘‘ کسی بھی حکومت بشمول جمہوریت کے لیے خطرناک ہوتی ہے اور امریکی جمہوریت تو خاص طور پر اس کا ہدف بن سکتی ہے کیونکہ امریکا کا آئین تو شہریوں کے اپنے حکام کے خلاف درخواست دائر کرنے یا تبدیلی کے لیے مہم کے حق کا تحفظ کرتا ہے۔اگر شہری یہ فیصلہ کریں کہ وہ کسی پیشہ ور شخص کی خدمات حاصل کرکے مؤثر انداز میں تبدیلی کی وکالت کرسکتے ہیں اور وہ شخصیت ان کی جانب سے عہدے داروں سے ملاقات کرسکتی ہے تو اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ اس لیے ہم لابیئسٹوں کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔وہ سیاست دانوں تک رسائی حاصل کرکے اور اپنی صلاحیت کے بل پر ان کے ذہن تبدیل کرکے رقم کماتے ہیں۔ اس صورت حال میں یہ بالکل فطری سی بات ہے کہ غیرملکی حکومتیں لابیئسٹوں کی خدمات حاصل کریں یا دوسری صورت میں منتخب عہدے داروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں۔امریکی پالیسی کے اچھے یا بْرے، دنیا بھر میں بے پایاں اثرات ہوتے ہیں۔اگر کوئی حکومت میز پر اپنی جگہ بنانے کے لیے تگ ودو نہیں کرتی ہے تو اس کا بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ چناں چہ قطر جب 2017ء میں اپنے خلیجی عرب ہمسایوں سے کٹ کررہ گیا تھا اور ایک وقت میں جب حکمراں نظام کی بقا کے لیے ہی خطرات پیدا ہوگئے تھے تو اس پس منظرمیں کوئی بھی انھیں یہ الزام نہیں دے سکتا کہ انھوں نے امریکا کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے کیوں سخت تگ ودو کی تھی۔ لیکن ہمیں مجرموں کو خود کو جرائم میں ماخوذ کرنے پر الزام دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ترغیب اور تحریص (رشوت) کی دنیا میں فرق ہے۔اس لیے رشوت کی پیش کش کرنا اتنا ہی غیر قانونی ہے جتنا کہ رشوت کی وصولی ہے۔اگر ایجنٹوں (خواہ یہ کوئی بھی ہوں) نے ترغیب سے قدم آگے بڑھا کر رشوت کی حدود میں رکھ دیا تھا تو ہمیں ان کی اسکیموں کو بے نقاب کرنے اور انھیں سزا دینے کی ضرورت ہے۔ پھر ہم یقینی طور پر ان سیاست دانوں اور صحافیوں کو بھی الزام دے سکتے ہیں جنھوں نے معمول سے ہٹ کر کسی کو نوازنے کا کاروبار کیا ہے اور رقم کے بدلے میں اپنی قانونی اتھارٹی کو فروخت کیا ہے۔جب منتخب عہدے دار کسی غیرملکی قوت سے رشوت قبول کرتے ہیں تو ان کے دل میں اپنے ملک کے مفادات نہیں ہوتے ہیں۔وہ دولت کی ہوس سے امریکی پالیسی کو تبدیل کر رہے ہوتے ہیں۔حتیٰ کہ وہ زندگیوں کو بھی تباہ کردیتے ہیں۔یہ بات اس وقت زیادہ درست معلوم ہوتی ہے جب قطر سے رشوت لی جاتی ہے۔ اگرکویتی نژاد ایلن بِندر کے الزامات درست ہیں تو الہان عمر کا جرم اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔ایف بی آئی کو اس تمام معاملے کی مکمل تحقیقات کرنی چاہیے۔اگر کوئی اور وجہ نہیں تو صرف اس بنا پر تحقیقات کرنی چاہیے کہ الہان عمر اگر بے گناہ ہیں تو ان کے سر سے شک کے بادل چھٹ جائیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ مغرب میں قطر کے اثرورسوخ کی بڑی کارروائی زیادہ واضح انداز میں سامنے آرہی ہے اور سمجھی جارہی ہے لیکن ہم قطر کے عوامی سطح پر کیے گئے قانونی اقدامات کے بارے ہی میں زیادہ تر جانتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے امریکی کمپنی کے ایچ ہولڈنگز قطر کے رشوت ستانی کے نیٹ ورک میں اہم کردار تھی۔کے ایچ ہولڈنگز کے رقوم کی ترسیل ، جائیداد کے تحائف، اسپانسرڈ سفر یا تعطیلات گزارنے کی پیش کش سے متعلق کوئی بھی ریکارڈ حاصل کیا جاسکتا ہے اور اس سے بندر کے الزام کے مطابق کرپشن کے جال کو بے نقاب کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔اگر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ عوامی شخصیات نے امریکی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے لیے بغیرملکی رقم وصول کی تھی تو پھر انھیں کسی دفتر نہیں، بلکہ جیل جانا چاہیے۔ ایک ملک کی حیثیت سے ہمارا منتخب حکام پر انحصار اور بھروسا ہوتا ہے کہ وہ امریکی مفادات کو سب سے مقدم رکھیں۔اگر حکومت کی بالائی سطح پر کرپشن کا خطرہ ہے تو ہمارے قانون نافذ کرنے والے حکام کو اس کا سراغ لگانا چاہیے اور امریکی سیاست کی سالمیت کا تحفظ کرنا چاہیے۔ورنہ دوسری صورت میں پھر پوری دنیا ہی اس غیرملکی طاقت کے رحم وکرم پر ہوگی جس کے پاس نقدی کا سب سے بڑا بریف کیس ہوگا اور جس کے پاس بدعنوان سیاست دانوں کے پتے کی سب سے بڑی کتاب ہوگی۔اگر ایسی ہی تشویش کی بنا پر امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ کیا جاسکتا ہے تو پھر کانگریس کے ارکان کے خلاف بھی تحقیقات کی جانا چاہیے اور اس کا آغاز الہان عمر ہی سے ہونا چاہیے۔ (بشکریہ العربیہ )