وزیر اعظم پاکستان عمران خاں نے ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کی سربراہی میں 2008ء سے لے کر 2018ء تک حاصل کئے گئے قرضوں کی تحقیق کے لئے انکوائری کمشن تشکیل دیا تھا جس نے نو ماہ کی جہد مسلسل کے بعد بالآخر رپورٹ تیار کر لی ہے۔ رپورٹ میں کئی ترقیاتی منصوبوں میں کک بیکس ‘ اختیارات کے ناجائز استعمال‘ بڑے پیمانے پر خوردبرد اور چوری کی نشاندہی کی گئی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کا پہلا بجٹ پیش کرنے کے بعد قوم سے خطاب میں 2008ء سے لے کر 2018ء تک حاصل کئے گئے24ہزار ارب روپے کے قرضوں کی تحقیق کے لئے کمشن تشکیل دیا تھا، جس میں آئی بی‘ ایف آئی اے‘ ایف بی آر‘ آئی ایس آئی اور ایس ای سی پی کے نمائندے بطور اراکین شامل تھے۔ جس نے 9ماہ کے اندر دس سالہ قرضوں کی رپورٹ تیار کر لی ہے۔ کمشن نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ کس طرح قرضوں کی مد میں پیسہ مشکوک انداز میں سرکاری افسروں‘ پرائیویٹ کنٹریکٹرز‘ سیاستدانوں‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار حکومت میں وزرا کے نجی اکائونٹس میں منتقل ہوا۔ انکوائری کمشن نے 23اداروں سے وابستہ 20اہم شخصیات کی نشاندہی بھی کی ہے جنہوں نے 220نجی اکائونٹس کے ذریعے 150منصوبوں سے 450ارب روپے کی منتقلیاں کی ہیں۔2008ء سے لے کر 2018ء تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور بیرون ممالک سے 24ہزار ارب روپے قرضہ لے کر قوم کے ہر فرد کو قرض میں ڈبو دیا۔ ان دونوں جماعتوں سے قبل جنرل پرویز مشرف اقتدار پر قابض تھے۔تب پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں عالمی مالیاتی فنڈ سے صرف ایک ارب ڈالر کا قرض لیا اور اقتدار سے رخصت ہونے سے قبل مشرف نے غیر ملکی قرضہ ادا کر دیا تھا۔ لیکن 2008ء میں جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو اس نے متعدد بار آئی ایم ایف سے قرض حاصل کیا۔ یہ قرض کہاں خرچ ہوا ۔عوام اس سے کتنے مستفید ہوئے اس قرض کی بندر بانٹ کیسے ہوئی؟ ان تمام چیزوں کا کھوج لگانے کے لئے عمران خان نے یہ کمشن تشکیل دیا تھا۔ کمشن نے سرکاری قرضوں اور واجبات میں اضافے کا بھی جائزہ لیا ہے جو2008ء میں 6690ارب روپے سے بڑھ کر ستمبر 2018ء تک 30846ارب روپے ہو گیا تھا۔ کمشن نے ان دس برسوں میں 1020منصوبوں کی تفصیلات حاصل کیں۔ جبکہ اس کے علاوہ کمشن نے منگا ڈیم کی سطح بلند کرنے کے علاوہ رحیم یار خان ‘ چشتیاں‘ وہاڑی‘ گجرات‘۔ شالیمارکے وی ٹی لائن‘ دیا میر بھاشا ڈیم‘ گومل زام ڈیم‘ پٹ فیڈر کینال کی توسیع‘ شادی کور ڈیم کی تعمیر اور ضلع گوادر کے 60ترقیاتی منصوبوں کی جانچ پڑتال بھی کی ہے۔ دراصل ماضی کی حکومتوں میں ہمیشہ ایسے منصوبے شروع کئے گئے جن میں کک بیکس زیادہ ملتا تھا۔ یہ لوگ بیرون ملک سے جب قرض حاصل کرتے تھے تب پہلے کمشن وصول کر لیتے ۔ پھر منصوبہ جس کمپنی کو الاٹ کرتے اس سے بھی حصہ بٹور لیتے تھے۔ در حقیقت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مشرف کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے لئے 2006ء میں میثاق جمہوریت کیا تھا۔ اسی میثاق کے باعث دونوں جماعتوں کی قیادت واپس آ کر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اس میثاق جمہوریت کے تحت دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کی کرپشن اور لوٹ مار پر خاموشی اختیار کئے رکھی ۔2008ء سے لے کر 2013ء تک مسلم لیگ(ن) نے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا بعدازاں 2013ء سے لے کر 2018ء تک پیپلز پارٹی نے بھی (ن) لیگ کے کارناموں پر آنکھیں بند کئے رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے ناسور نے پاکستان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ گزشتہ برسوں میں لیا گیا قرض اگر اس قوم پر خرچ ہوتا تو آج زمینی حقائق کچھ اور ہوتے۔ پیپلز پارٹی کو عوام تینوں صوبوں سے نکال کر صرف سندھ تک ہی محدود نہ کرتے۔ اے این پی کا بوریا بستر گول نہ ہوتا۔ متحدہ مجلس عمل کا بھی صفایا نہ ہوتا۔ دراصل ان تمام سیاسی جماعتوں نے حکومتی مفادات کو پس پشت ڈال کر صرف اپنی ذات کے لئے کام کئے تھے۔ جس کے باعث عوام نے بھی ان سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ بجلی اور گیس کے کنکشنوں سے لے کر سرکاری ملازمتیں دلوانے تک ہر قسم کے کام سے سیاستدانوں نے کمشن وصول کیا، مال بٹورا ۔جس کے باعث غریب آئے دن غربت کی چکی میں دھنستا چلاگیا جبکہ سیاستدان امیر ہوتے گئے۔ عوام نے اسی بنیاد پر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو اقتدار سے چلتا کیا تھا لیکن یہ لوگ اب بھی ذاتی مفاد کے لئے سیاست کرنے سے باز نہیں آ رہے ہیں جس کے نتائج انہیں آنے والے انتخابات میں عوامی نفرت کی صورت میں بھگتنا پڑیں گے۔وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے جو جو وعدے کئے تھے ابھی تک انہیں ایفا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ چینی اور آٹا پر کمشن بنا کر اس کی رپورٹ عام کی۔ مشکل سے مشکل وقت میں احتساب سے پیچھے نہیں ہٹے۔ سیاسی پارٹیوں کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا۔ نو ماہ قبل انہوں نے قومی قرضہ کمشن قائم کر کے دس برسوں میں لیے جانے والے قرضوں کی تفصیل عوام کے سامنے لانے کا وعدہ کیا تھا۔ اب وہ اس رپورٹ کو بھی عام کرنے کے لئے تیاری پکڑ رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے آنے کے بعد قوم کو کم از کم اس بات کا ادراک ہو جائے گا کہ ماضی میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے کس طرح قومی خزانہ کو ذاتی خزانہ سمجھ کر لوٹا۔ کس کس بیورو کریٹ اور سیاستدان نے قومی منصوبوں میں کتنا کمشن وصول کیا اور بیرون ملک سے آنے والے پیسے کی کس طرح بندر بانٹ ہوئی۔ عمران خان رپورٹ عام کرنے کے بعد اگر کرپٹ عناصر سے ریکوری کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو قوم ان کا یہ احسان کبھی بھول نہیں پائے گی۔