قدیم ڈیرہ غازی خان کہ جس کی بنیاد حاجی خان میرانی نے ا پنے بیٹے غازی خان کے نام پر رکھی تھی نواب حاجی خان دودائی (میرانی ) کے 1476ء میں بسائے گئے اس شہر کو یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ پورا شہر اِس وقت سیوریج کے ایک بہتے دریا پر کھڑا ہے جو کسی وقت بھی سیوریج کی پائپ لائنیں تباہ ہونے سے گر سکتا ہے ۔ انگریز نے سیوریج سسٹم اوپن ڈرین یعنی کھلی نالیوں کے ذریعے بنایا تھا آج ایک سو سال گزر جانے کے باوجود شہر میں کہیں وہ کھلی نالیاں موجود ہیں جن کے ذریعے سیوریج کا پانی گزر رہا ہے۔ انگریزوں نے برصغیر میں جتنے بھی شہر بسائے اُنہوں نے وہاں کے ماحول اور مٹی کے مطابق مختلف درختوں کی اقسام بھی لگوائی تھیں۔ ڈیرہ غازی خان کے ماحول اور زمینی ساخت کو مد نظر رکھتے ہوئے اُنہوں نے یہاں پر سینکڑوں کی تعداد میں نیم کے درخت لگوائے تھے جس کے زبردست طبی فوائد ہیں لیکن افسوس کہ ہماری سقراط بقراط بیورورکریسی نے 1990ء میں سڑکوں کے کنارے لگے نیم کے درخت کٹوا دیئے اور پورے شہر کو سورج کی تیز دھوپ کے رحم کرم پر چھوڑ دیا۔ ڈیرہ غازی خان کی بد قسمتی ہی سمجھ لیں کہ یہاں پر جو بھی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر آئے۔ اُنہوں نے صرف تجربات ہی کیے۔چھ ماہ ایک سال تک رہنے والے اِن لوگوں نے اپنی مرضی کے فیصلے کیے مانکہ کینال جو کبھی صاف شفاف پانی کا مرکز ہوا کرتی تھی لیکن 1972ء میں انتظامیہ نے اِس خوب صورت نہر کو بند کر دیا اور اُسے شہر کے سوریج میں تبدیل کر دیا۔ مانکہ کینال کے بند ہو نے سے پورے شہر کا پانی یکدم کڑوا اور گردوں کی بیماریاں عام ہونے لگیں جو آج تک جاری ہیں پھر ستم یہ ہوا کہ شہر میں نئے سرے سے سیوریج سسٹم انڈر گروانڈ تعمیر ہونا شروع ہو گیا۔ شہر میں انڈر گروانڈ سیوریج سسٹم کا آغاز 1884 ء سے کیا گیا اور پھر لغاری سردار 1995ء اور 2008ء میں جب کھوسہ سردار برسراقتدار تھے تو تقریباً پورے شہر کا سیوریج سسٹم تبدیل کیا گیا۔ناقص منصوبہ بندی کے تحت پبلک ہیلتھ کے کرپٹ اور نا اہل انجینئرز نے سیوریج کی پائپ لائنیں بچھائی اور پھر یوں ہوا کہ صرف دو سال کے قلیل عرصہ میں شہر میں مختلف سڑکوں نے ا چانک نیچے بیٹھنا شرو ع کر دیا چونکہ نیچے انتہائی نا قص میٹریل کی پائپ لائن اور پھر انتہائی چھوٹے پائپ ڈالے گئے تھے جی بھر کر پبلک ہیلتھ اور اُس وقت کے بر سرار اقتدار لوگوں نے لوٹ مار کی ۔ پھر سردار عثمان بزدار بر سراقتدار آئے اور اُنہیں رپورٹ دی گئی کہ پورے شہر کی 70 فیصد سیورریج پائپ لائنیں نیچے سے تباہ ہو چکی ہیں پھر ایک دیانت دار اور سخت گیر مشہور کمشنر نسیم صادق پانچ ماہ کے لیے تعینات ہوئے جنہوں نے حکومت پنجاب کا پیسہ بچاتے ہوئے وزیر اعلیٰ کو رپورٹ دی کہ پورے شہر کی نئے سرے سے پائپ لائن بچھانے کی بجائے میں خود اپنی نگرانی میں سیوریج لائنیں ٹھیک کر ا دوں گا اُنہوں نے شہر میں سیوریج لائنوں کو ٹھیک کرنا تھا مگر اُن کا تبادلہ ہو گیاا ور اب شہر کی یہ حالت ہے کہ سیوریج کی انڈر گروانڈ لائنوں کے رحم کرم پر کھڑا ہے۔ اکثر جگہوں پر سڑکوں میں نیچے خوفناک گڑھے پڑ چکے ہیں درجنوں مرتبہ شہری گاڑیوں سمیت اچانک سیوریج لائن بیٹھنے کی وجہ سے اِن گڑھوں میں گر چکے ہیں اور اب تو سڑکوں پر گاڑیاں چلانے والوں کو زبردست احتیاط کرنی پڑتی ہے کہ کہیں پر اچانک سڑک بیٹھنے سے وہ گاڑی سمیت نیچے نہ گر جائیں ۔ حنیف خان پتافی شہر کے ایم پی اے ہیں اور شہر کا پورا حلقہ اُنہی کے ووٹر ز پر مشتمل ہے لیکن وہ بھی ابھی تک شہر کے لیے کچھ نہیں کر سکے حالانکہ یہ اُن کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ا نتطامیہ خصوصاً کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے ساتھ شہر کو مزید بتاہی سے بچانے کے لیے ڈٹ کر اپنے مطالبات منوائیں اور شہر بھر میں نئے سرے سے سیوریج کا کام کرائیں اور بجائے انڈر گروانڈ سیوریج سسٹم تعمیر کرائیں بلکہ اوپن ڈرین سسٹم بنوائیں کیونکہ ڈیرہ غازی خان کی مٹی اور ماحول انڈر گروانڈ سیوریج سسٹم کے لیے موزوں نہیں ہے لیکن چونکہ پبلک ہیلتھ کے کرپٹ انجینئرز نے کرڑوں روپے کی کرپشن کرنا ہوتی ہے تو اس لیے وہ ہمارے منتخب نمائندوں کو ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ وہ احساس کمتری کے مارے لوگ فوراً قائل ہو جاتے ہیں۔ ا بھی گذشتہ دو ماہ قبل پبلک ہیلتھ والوں نے پاکستانی چوک سے لے کر پتھر بازار چوک تک پورے سڑک کو تباہ وبرباد کر کے نیچے سیوریج کی پائپ لائن بچھائی تھی جو صرف دو ماہ کے عرصہ میں کام کرنا چھوڑ چکی ہے اور سیوریج کے ناقص ڈالے گئے پائپوں سے پانی نکل کر باہر سڑک پر آچکا ہے چونکہ کرپٹ مافیا کو پتہ ہے کہ وہ جتنی بھی کر پشن کر لیں اُن کا کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ اُن کو اِس لاوارث شہر کی سب سے قدیم تفریح گاہ سٹی پارک میں سیوریج کے پانی کی وجہ سے تباہی نظر نہیں آرہی ۔ کہ گزشتہ دو ماہ سے سٹی پارک میں لائبری کے سامنے والے گروانڈ میں سیوریج لائن پھٹ جانے سے سیوریج کا پانی سٹی پارک میں کھڑا ہے اور جس سے ڈینگی پھیل رہا ہے۔ پی ایچ اے والوں کو درجنوں مرتبہ نوٹس میں دیا گیا چونکہ ان کو شہر کی ترقی سے کوئی غرض نہیں اس لیے اُنہوں نے دو ماہ گزر جانے کے باوجود بھی سٹی پارک سے سیوریج کا پانی نہیں نکلوایا جو اب ایک بڑے گندے جوہڑ کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سٹی پارک سے کچھ فاصلہ پر ہماری ایم این اے محترمہ زر تاج گل صاحبہ کا گھر واقع ہے کیا اُنہیں بھی یہ تباہی نظر نہیں آرہی یہ اُن کی بھی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ پورے شہر کو سیوریج کے پانی سے بچانے کے لیے میدان عمل میں آئیں۔ وہ تو اگلے الیکشن میں بڑے پر جوش انداز سے حصہ لینے کا فیصلہ کر چکی ہیں اسی طرح حنیف پتافی بھی شہر سے اگلے الیکشن میں امیدوار بن چکے ہیں کیا وہ شہر کی تباہی کے بعد عوام کو مطمئن کر سکیں گے ۔