پھر وہ میری طرف پلٹے اور کہا:دعا اور صدقہ۔ہاں!دعا اور صدقہ اور اس دن میں نجات اور ملاقات کی آرزو‘جو کبھی تمام نہ ہوگا۔ یٰسین صاحب نے کہا:اچھا تو وی آئی پی لائونج آ جانا۔وی آئی پی لائونج ؟عرض کیا‘اس کے لئے تو بندوبست کرنا ہو گا۔لاہور سے اسلام آباد جانا تھا۔اسی ایک کمرے میں ٹھہرنا تھا‘سینیٹر کی حیثیت سے‘جو ان کے چھوٹے بھائی سینیٹر طارق کو ملاتھا۔مشہور منجم پروفیسر غنی جاوید کے ہمراہ‘جہاں بعدازاں مہینوںمیں مقیم رہا ؛تاآنکہ خاندان دارالحکومت منتقل ہو گیا۔ اب یاد نہیں کہ یٰسین صاحب کے ساتھ لائونج میں داخل ہوا یا کوئی سفارش ڈھونڈی۔کرسیوں پر بیٹھ چکے تو تعجب سے انہوں نے کہا:تو کیا اجازت کی ضرورت ہوا کرتی ہے؟۔پھر انکشاف کیا کہ عشرے بھر سے وہ یہ سہولت برت رہے ہیں۔کبھی کسی نے انہیں روکا نہیں۔کبھی کسی نے سوال نہ کیا۔ کون روکتا۔ایسی خیرہ کن وجاہت کہ پہلی نظر پڑتے ہی دیکھنے والا مرعوب ہو جاتا۔اس پہ ایسی خوش لباسی اور پھر ایسا باوقار انداز۔چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد۔ایسے دلکش خدوخال کہ خلیل جبران کے ناول کا پہلا جملہ یاد آیا۔مصطفی منتخب اور محبوب۔ اس جملے کا دوسرا حصہ یہ ہے ’’بھوک اور پیاس نے اس کی روح کو گداز بخش دیا تھا‘‘۔ گداز تو ان میں بھی تھا اور ایسا کہ بایدوشاید مگر بھوک اور پیاس نہیں‘تو نگری کے باوصف۔کہر اورو دھوپ کے موسموں سے وہ بھی گزرے کہ کوئی زندگی آزمائش سے خالی نہیں ہوتی مگر اس گداز میں کبھی فرق نہ آیا۔ پچھلے ہفتے وہ انتقال کر گئے۔جن زندگیوں سے ان کا واسطہ تھا‘اب تک عالم وہی ہے‘جو شاعر نے کہا تھا:رفتید ولے از نہ دل ما۔یقین ہی نہیں آتا۔کون ہے جو ان سے ملا ہو اور مسحور نہ ہو گیا ہو۔دنیا کے کسی دیار میں وہ اجنبی نہ تھے۔ ابھی ابھی انہی کنجوںمیں اس کے سائے تھے ابھی ابھی تو وہ تھا ان برآمدوں میں یہاں 1950ء کے عشرے کے آخری ایام تھے‘جب وہ لندن سدھارے۔ایک بار بتایا کہ شروع میں معمولی درجے کی ملازمتیں یا کاروبار کرنا پڑے۔ہم نے ہوش سنبھالا اور انہیں دیکھا تو ہر تیورسے‘امارت اور خوش ذوقی ٹپکتی تھی۔مجلس آرا آدمی‘ جہاں بیٹھ جاتے‘تقریب رونما ہو جاتی۔ کسی نے بتایا کہ اسی درزی سے لباس سلواتے ہیں‘جس سے شہنشاہ ایران’باایں ہمہ اس قدر سادگی‘ایسی اپنائیت ‘ایسا ٹھہرائواور بے نیازی کہ سبحان اللہ! سیدابوالاعلیٰ مودودی اور پیر صاحب پگاڑا سے لے کر گرد آلود چک 42جنوبی کے پڑوسیوں تک ‘جس شخص کی زندگی میں داخل ہوئے‘ہمیشہ کے لئے اس کے قلب و دماغ میں قیام فرما ہو گئے۔ سید صاحب لندن جاتے تو انہی کے ہاں قیام کرتے۔مشرقی پاکستان مرحوم الگ ہوا تو فرمائش نہ کرنے والے خوددار آدمی نے انہیں فون کیا:یٰسین صاحب‘پان بھجوا دیجیے۔امریکہ میں ان کا انتقال ہوا تو یٰسین صاحب ہی سے فرمائش کی گئی کہ ان کی میت واپس لانے کا بندوبست کریں۔ لندن کی پاکستانی برادر ی میں عشروں تک ممتاز ترین وہی تھے۔مشاعرے ان کے کشادہ مکان پربرپا ہوتے۔پاکستان سے جانے والے خاص اور عامی ان کے ہاں قیام کرتے۔ایک خوش دل میزبان۔ اپنے خاندان کو پالا‘پالا ہی نہیں بالا کیا۔پھر ان کے چھوٹے بھائی میاں محمد خالد حسین نے جو ایثار و نجابت میں بڑے بڑوں پر بازی لے گئے۔جنرل محمد ضیاء الحق اس قدر ان کے اسیر تھے کہ ایک آدھ مہینہ گزرتا تو ملاقات کی فرمائش کرتے۔اپنے گھر میں ٹھہراتے‘گھنٹوں ان سے گفتگو کیا کرتے۔ یہی زمانہ تھا جب لاہور میں ان کا کاروبار اچانک تباہی سے دوچار ہوا۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے ذکر تک نہ کیا۔جن کے ایک اشارے پر‘دس بیس کروڑ روپے قرض لے سکتے۔ خود داری کے پیکر پھر سودی قرض کیونکر انہیں گوارا ہوتا۔حکمران سے فرمائش ان کی افتاد طبع کے خلاف تھی۔بالکل برعکس اس طرح ان سے گفتگو کرتے کہ مقتدر نہیںان کے ہم جولی ہیں۔ طلبہ انجمنوں پر پابندی لگی تو لاہور کی کیمپ جیل میں اسلامی جمعیت طلبہ کے دو اسیر کارکنوں کو مارا پیٹا گیا۔امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد طلبہ کی ہنگامہ آرائی کے حق میں نہیں تھے۔جماعت کے قائدین نے چنانچہ ان سے درخواست کی کہ جنرل سے بات کریں۔ جنرل اپنی مخصوص ہنسی ہنسا اور اس نے کہا:یٰسین صاحب‘آپ بھی ان کے جھانسے میں آ گئے؟۔۔۔۔۔۔ تراشی گئی‘ایک داستان ہے‘بے سروپا۔ برہم میاں صاحب شاذ ہی ہوتے مگر ہوتے تو گردوپیش پہ لرزہ طاری ہو جاتا۔جنرل سے کہا:ہر حکمران فریب خوردہ ہوا کرتا ہے۔آپ بھی ویسے ہی نکلے۔جنرل نے فون اٹھایا اور کیمپ جیل کے سپرنٹنڈنٹ سے کہا‘سچ اگل دو ورنہ معاف نہ کروں گا۔اس نے اگل دیا۔معلوم ہوا کہ گورنر سمیت بالکہ انہی کے ایما پر ایجنسیوں نے کہانی گھڑی تھی۔ 27دسمبر 1971ء کو روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو میاں صاحب جنرل کے مہمان تھے۔دیر سے آئے۔معذرت کی اور بتایا کہ تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے۔اسی شب ذہنی طور پر جنرل کو انہوں نے سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں پایا‘جو خود کو متامل مزاج حکمران کہا کرتا۔نہایت یکسو پایا۔باقی تاریخ ہے۔ کچھ دن بعد اس کی تفصیلات مجھے بتائیں۔راجیو گاندھی والی کہانی بھی انہی سے سنی‘ضیاء الحق جب کرکٹ کا میچ دیکھنے گئے۔بھارتی وزیر اعظم سے جب یہ کہا:گولہ بارود آپ نے فوج کو جاری کر دیا ہے۔میں ایک سپاہی ہوں اور جانتا ہوں کہ گولہ بارود حملہ کرنے کے لئے جاری کیا جاتا ہے۔افغانستان میں ہم الجھے ہیں۔جارحیت کا اگر آپ نے ارتکاب کیا تو دلی‘ممبئی اور کلکتہ ایسے شہروں کے نام ہی تاریخ کے لئے باقی رہ جائیں گی‘عملاً اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں‘بھارتی فوج واپس چلی گئی۔ کتنی بے شمار کہانیاں تھیں‘جو وہ اپنے ساتھ لے گئے۔مبالغہ آرائی سے یکسر پاک راوی۔کئی بار ان سے عرض کیا۔یہ سب کچھ بیان کر دیجیے۔ان کی عدیم الفرصتی اور اس ناکردہ کار کی کاہلی‘وگرنہ مکہ مکرمہ‘مدینہ منورہ‘ جدہ ‘لاہور اور اسلام آبادمیں فرصت کے کتنے ہی لمحات میسر آئے‘ زیاںبہت ہے‘اس کائنات میںزیاںبہت۔ پانچ دن بیت گئے۔ایک لفظ لکھا نا جا سکا۔اب بھی کیا خاک لکھا ہے‘ایسے آدمی کی تصویر کشی کے لئے انہماک چاہیے ‘ایک طویل انہماک۔کچھ موضوعات ادق ہوتے ‘ مراقبہ طلب کرتے ہیں۔کتنے سروں پہ ہاتھ رکھا۔کتنی زندگیاں سنواریں‘آسودہ حال تھے تو دست سخا ہمیشہ حرکت میں رہا کرتا۔ایسی زندگی ، ایک زندگی کہ سینکڑوں پر محیط۔بیان کرنے کے لئے آخر وہ قلم چاہیے‘جس میں آخر شب کا گداز و رچائو‘کوہ کن کاتیشہ اور جوہری کی نظر چاہیے۔خشک ڈھیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے،تب نظر آتی ہے اک مصرعہ تر کی صورت۔ جن سے مل کر زندگی سے پیار ہو جائے وہ لوگ آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں ایک واقعہ سن لیجیے۔اسلام آباد سے راولپنڈی میں اعجاز الحق کے ہاں جاتے ہوئے‘تسبیح ان کے ہاتھ میں تھی اور یہی ہاتھ سٹیرنگ پر۔عرض کیا‘جیب میں ڈال لیجیے۔مسکرائے اور خاموش ہو گئے۔ ’’جس دن سے نماز پڑھنا شروع کی اور پھر تسبیح کا آغاز کیا‘وضو سے رہتا ہوں‘‘۔کچھ دن بعد‘اسی دھیمے باوقار لہجے میں کہا‘خود نمائی اور ریا کاری کا جس میں کبھی شائبہ تک نہ ہوتا۔ یہ نہیںکہ کبھی اختلاف نہیں ہوا۔ہم خالہ زاد بھائیوں میں اس طرح کا فاصلہ ہرگز نہیں‘ بالعموم جو ہوا کرتا ہے۔ کوئی تکلف نہ تصنع۔ طارق چوہدری اور مشتاق جاوید پنجاب یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو میرے چھوٹے بھائی محمد امین بھی۔لندن سے اس کے لئے اتنے ہی روپے بھجواتے‘جتنے اپنے سگے بھائیوں کے لئے ‘میری تنخواہ سے کچھ زیادہ۔ کس سے تعزیت کریں اور کریں بھی تو کیسے۔لاہور جاتے ہوئے ۔عارف کے ہاں رکا تو ہمت جواب دے گئی۔ بات کرنا چاہی توالفاظ گلے میں اٹک گئے حیرت زدہ انہوں نے کہا:کیا کوئی المیہ بیت گیا۔جی ہاں یٰسین صاحب بیت گئے۔اس پر جو کچھ انہوں نے کہا اس کا خلاصہ یہ ہے ؎ موت سے کس کو رستگاری ہے آج تم کل ہماری باری ہے ملاقاتیوں کو نمٹا چکے ‘دوست اور اقربا رہ گئے تو کچھ دیر یٰسین صاحب کے بارے میں بات کرتے رہے‘پھر ان سے کہا:آج کی تسبیحات کا ثواب آپ سب یٰسین صاحب کو بخش دیجیے۔ پھر وہ میری طرف پلٹے اور کہا:دعا اور صدقہ۔ہاں!دعا اور صدقہ اور اس دن میں نجات اور ملاقات کی آرزو‘جو کبھی تمام نہ ہوگا۔