میاں نظامی! ایک وہ ہمارا تمھارا زمانہ تھا کہ اساتذہ کے سادہ سادہ کمروں کے پٹ کسی عاشق کے دل اور محبوبِ مغلوب کی باہوں کی طرح کھلے رہتے تھے۔ ٹھنڈی مشینیں اور مزاج ابھی اس قریۂ ادب و لطافت میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ ہم پتلی گلی ہی میں سے جھانک کے ڈاکٹر خواجہ زکریا، ڈاکٹر ظہور احمد اظہر، حفیظ تائب، ڈاکٹر سہیل احمد خاں، ڈاکٹر عبیداللہ خاں، سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر اکرم شاہ، ڈاکٹر ظہور الدین، ڈاکٹر مظہر معین، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر آفتاب اصغر، ڈاکٹر شہباز ملک، ڈاکٹر اسلم رانا، ڈاکٹر یوسف بخاری، ڈاکٹر رسول بخش، خلوص کے شیرے سے چپچپاتے نوازش علی، برسوں خالص سرسوں کا تیل لگا کے آنے والے عصمت اللہ زاہد، جوانی کی جولانی میں مست سُریلے، مُسکریلے فخرالحق نوری، دیدہ زیب پردے میں لپٹی خانم حکیمہ دبیرہ، حتیٰ کہ شام کی کلاس میں فرنچ پڑھانے آنے والی فرانسیسی خوشبو جیسی رعنا خاں وغیرہ کی موجودگی، مزاج اور مصروفیت کا اندازہ کر لیتے تھے۔ اساتذہ کے کمروں سے قہقہوں اور چہچہوں کی آوازیں آتی تھیں۔ ہم نے انھی بے آب و گناہ کمروں میں ڈاکٹر جمیل جالبی، محمد کاظم، معین الدین عقیل، فتح محمد ملک، واصف علی واصف، سعید اختر درانی، ڈاکٹر وزیر آغا، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، انور مسعود اور بہت سَوں کو ہنستے بولتے اور علم کے موتی رولتے دیکھا ہے۔ میاں! تم تو جانتے ہی ہو کہ ہمارے زمانے میں اس پورے کالج میں دو ہی موٹریں ہوا کرتی تھیں، جو کالج کے دو مختلف حصوں میں کرامت، قدامت اور ندامت کا گھونگھٹ نکالے ہر آئے گئے کے سامنے دیہاتی بہو بیٹیوں کی طرح شرمائی لجائی کھڑی رہتیں۔ ان میں سے ایک تو استادِ مکرم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کی لال رنگ اور کمال ساخت (یعنی کسی فربہ کورین خاتون کی چپٹی ناک جیسی) فوکسی اور دوسری اتالیقِ مفرس اور تمھاری آج والی جائے سطوت پہ تا دیر اور ڈھیروں ڈھیر متمکن جناب سید اکرم شاہ اکرام کی بے رنگ بلیلہ، جو اُن کو گھر پہنچانے سے زیادہ ہمیں حظ پہنچانے کے کام آتی تھی۔ میاں سچ کہتا ہوں ہم نے شاعری میں جو تھوڑی بہت ٹوں ٹاں سیکھی ہے، اس میں کسی حسینۂ بے بدل کی بادل زلفوں، چنبیلی دانتوں، مستانی چال اور ساحر آنکھوںسے زیادہ اسی عجوبۂ روزگار محترمہ و محرکہ اور اس کی ڈرائیونگ سیٹ پہ دَم سادھے پڑے صوفیانہ تولیے کا ہاتھ ہے۔ تمھیں بھی یاد ہوگا کہ اس زمانے کے باقی موقر اساتذہ سائیکلوں، موٹر سائیکلوں، تانگوں اورٹانگوں پہ کالج پہنچتے تھے۔ میاں نوری نے تو یہ بھی بتایا کہ جب وہ پہلی بار موٹر سائیکل پہ کالج آئے تو یہیں کے کسی صاحب نے ایک معشوقانہ نظر کنواری موٹر سائیکل پر اور دوسری مشکوکانہ نظر تقریباً شادی شدہ سوار پر ڈالتے ہوئے حیرت سے دریافت کیا تھا: ’’اپنی اے؟؟‘‘ لیکن مولانا یہ وہ زمانہ تھا جب سب کے چہروں سے کامرانی و شادمانی ڈُل ڈُل پڑتی تھی۔ سکیل چھوٹے تھے مگر سکِل بڑے تھے۔ میاں! ایک اب تمھارا زمانہ ہے،اب تو یہاں کے پُر اسرا گلی کوچوں کی شوکت و سطوت کا یہ عالم ہے کہ ہم جیسے دور دیس کے مکینوں اور اجنبی مسکینوں کو دیکھ دیکھ کے رشک سے زیادہ خوف آتا ہے۔ کسی شاہی ایوان کے اندر جھانک کے دیکھ لیں، جس کی سچ پوچھو تو کم ہی ہمت پڑتی ہے کیونکہ اب انھی دروازوں کے پَٹ سنگ دل محبوب اور تنگ دل واعظ کے ظرف کی مانند بھِنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ شیشوں کے اوپر میری عقل سے بھی موٹے پردے پڑے ہیں۔ بعض دروازوں پہ تو ان گنہ گار آنکھوں نے دو دو تالے انگریزی کے ڈبل ایکس کی طرح پڑے دیکھے ہیں۔ ہمارے زمانے میں تو ہاسٹل کے کمروں پہ سیکورٹی سے زیادہ مَیس کا بِل آنے یا کئی مہینے کی عدم ادائیگی کی صورت میں لگا کرتے تھے۔ یہاں کی بابت مَیں نے بہت سوچا کہ ان میں سے ایک تالا تو مجھ جیسے بے وقت کے بے وقعت ملاقاتیوں کے شر سے بچنے کے لیے لگایا گیا ہوگا، دوسرے کی آج تک سمجھ نہیں آئی؟ تم کو آئی ہے تو مجھ جیسے بے سُرے بے تالے کو بھی بتا دو۔ یقینا کوئی نیک مقصد ہی ہوگا؟ لیکن ہم اپنے پاٹے پرانے مزاج کا کیا کریں جو تالوں کی نگری میں بھی تالیوں کا زمانہ ڈھونڈتے ہیں۔ حضرت اب تو ایسا پُر اَسرار فیشن آن لگا ہے کہ لوگوں اور دروازوں کو دیکھ کے اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ تالا اندر لگا ہے یا باہر؟ اگر خوش قسمتی یا بار بار سر پٹکنے سے کسی عالم کے ہاں شرفِ باریابی حاصل ہو بھی جائے تو در و دیوار کی آرائش و زیبائش کو دیکھ کے آنکھیں بھی پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ منشیوں کے وہی بوسیدہ حجرے ہیں یا اوراقِ مصور ہیں؟ میاں مجھے تو بعض ایوانوں پہ مسندِ شاہی یا حجلۂ عروسی کا گمان ہوتا ہے۔ وہاں میرے پاس تو آپ لوگوں کے ذوق، شوق اور رکھ رکھاؤ کی داد کے لیے الفاظ اور انداز کم پڑ جاتے ہیںلیکن سچ بتاؤں مجھ فقیر پُر تفسیر کا تو اِن طلائی پنجروں میں دم گھٹتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ ادب و آگہی کی اس نگری میں وجدا ن کی راگنیاں اور آمد کے پنچھی کس راستے سے داخل ہوتے ہوں گے؟ ہم نے تو سنا تھا کہ علم بھی ایک بھولا بھالا درویش پکھیرو ہوتا ہے۔ حیران ہوں کہ وہ ان زریں شاخوں، طلسمی اشجار اور ہوش رُبا زندانوں میں کس دل سے اترتا ہوگا؟ پھر تمھیں یاد تو ہوگا کہ اسی عمارت کے بیچوں بیچ ایک پائیں باغ ہوتا تھا، شنید ہے کہ اب اسے بھی دائیں بائیں کے فرقوں میں بانٹ دیا گیا ہے؟ لالہ بسمل تو اس عمل کو دائیں بائیں کرنا کی بجائے آئیں بائیں شائیں کرنا کہتا ہے۔ اس کے بیچوں بیچ ’صراطِ مستقیم‘ کی دریافت یقینا کسی بھلے آدمی کی اختراع ہی ہو سکتی ہے۔ اس جوئے شِیر و شرسے ایک بستی سے دوسری تک جانے کا راستہ بھی یقینا آسان ہو گیا ہوگا ۔ یہ بھی مانا کہ دائیں بائیں کا کھیل اس قریے میں بہت پرانا ہے لیکن یار! ہمارے زمانے میں اس کھیل میں پودوں، پارکوں اور راستوں کو تو شامل نہیں رکھا جاتا تھا۔ میاں! سچ پوچھو تو موجودہ تمام احبابِ علم و ہنر بھی مجھے بہت عزیز ہیں۔ یہ سب میرے دل کے ڈیفنس فیز لوّ کے مکین ہیں۔ ان سے چھیڑ چھاڑ کا مقصدِ وحید اِن کے سُتے ہوئے چہروں کو ستواں بنانا تھا۔ کالج کے دروازے پہ روٹھی نئی نویلی دلھن کی طرح کھڑی مِس مزاح، جسے مَیں آج تک حسِ مزاح سمجھتا رہا، کو گھر واپسی کا راستہ دکھانا تھا۔ ہم سب پچپن کے آس پاس ہیں لیکن بچپن سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ میاں مجھ میں اور تم میں فرق یہ ہے کہ تم سہہ جاتے ہو، مَیں کہہ جاتا ہوں۔ تم بین السطور کے قائل ہو، مَیں بین الظہور پہ مائل۔ مجھے ہر بار احساس ہوتا تھا کہ بڑے بڑے گریڈوں ، اس سے بھی بڑی بڑی گاڑیوں، پُر تعیش رہائشوں، دفتری زیبائشوں، ہر طرح کی گنجائشوں کے باوجود لوگوں کے چہروں پہ کبیدگی، سنجیدگی، کشیدگی، بریدگی، بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کو معمول کی مسکراہٹ کے لیے بھی ناکام اداکاری کرنا پڑتی ہے لیکن اب مجھے لگ رہا ہے کہ مَیںبھی اپنی کوشش میں ناکام رہا ہوں کیونکہ اب یہ چاروں بہنیں کچھ دنوں سے اپنی بڑی بہن مزیدگی کے ہاں رہائش پذیر ہیں۔ (جاری)