سب سے پہلے تو میں کمیشن کے چیئرمین کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔اس امید کے ساتھ کہ وہ کمیشن کے چند ایسے معاملات کی طرف توجہ فرمائیں گے جو عرصے سے لاینحل اور نظرانداز چلے آ رہے ہیں۔ میں نے گاہے گاہے انگریزی اور اردو میں ان معاملات کے بارے میں کالم لکھے ہیں لیکن میری گزارشات صدا بصحرا ثابت ہوئیں اور وہ مسائل جن کا میں ذکر کرتا رہا ہوں جوں کے توں پڑے ہیں بلکہ بعض کی سنگینی میں تو اضافہ ہوا ہے۔ میں نے کبھی اپنے کالموں میں اپنا یا اپنی تعلیمی خدمات کا ذکر نہیں کیا۔ شعبہ تعلیم سے وابستہ حضرات اور طلباء کی اکثریت مجھے جانتی اور پہچانتی ہے لیکن صرف آپ کی آگاہی کے لئے عرض ہے کہ میں اس وقت پاکستان بھر میں سب سے سینئر پروفیسر آف انگلش ہوں اور میں نے تقریباً 35سال تک گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ انگریزی میں کام کیا ہے۔ ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں بطور صدر ممتحن کام کر چکا ہوں میرے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔مجھے یہ باتیں کرنا اچھا نہیں لگتا لیکن چونکہ میں اپنے گزشتہ کالموں میں کسر نفسی سے کام لیتا رہا ہوں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی نے میری تحریر کو کسر اعشاریہ جتنی اہمیت بھی نہیں دی۔ میں اب بھی زیادہ پرامید نہیں ہوں کہ میری بات کا کوئی خاطر خواہ اثر ہو گا۔ لیکن شاید کہ آپ کے دل میں میری بات اتر جائے۔ ویسے اصل مصرعہ یہ ہے کہ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات۔ لیکن میں نے سمجھا کہ آپ کو یوں مخاطب کرنا گستاخی ہو اگرچہ میں ہر کالم سے پیشتر قارئین اور چند متعلقہ حضرات سے گستاخی کی معافی مانگ لیتا ہوں۔ میں نے ایک پارٹ ٹائم جرنلسٹ کے طور پر اتنی معافیاں مانگی ہیں کہ اللہ معافی۔ بہرحال‘ آمدم برسرمطلب فی الحال میں صرف سی ایس ایس کے انگریزی کے پرچے کے بارے میں کچھ عرض کروں گا، اس امید کے ساتھ کہ طلبا کے ساتھ ایک عرصے سے جو سنگین مذاق ہو رہا ہے اس کی تلافی کی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ اس پیپر کو setکرنے والے بھی میرے ہی پیٹی بھائی یعنی انگریزی کے اساتذہ ہیں۔ ممکن ہے انہیں میری گزارشات پسند نہ آئیں لیکن چونکہ مجھے بھی ان کے پیپرز پسند نہیں ہیں لہٰذا حساب برابر ہو گیا۔ لیکن انہیں یہ سوچ کر یہ کڑوا گھونٹ بھر لینا چاہیے کہ بعض کڑوی دوائیں میٹھی دوائوں سے کہیں زیادہ موثر ہوتی ہیں۔میٹھی دوائوں کا تو یہ حال ہے کہ ان کا نام سنتے ہی مریض کی شوگر اور علاج کے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔مجھے شک پڑتا ہے کہ ان پیپرز کی تیاری میں کہیں نہ کہیں کمیشن کا ہاتھ بھی ضرور ہے ورنہ کبھی تو ایسا ہوتا کہ کوئی ڈھنگ کا پیپر بھی سامنے آتا۔ جب تسلسل کے ساتھ ایک بیماری سر اٹھاتی رہے تو ایسا سوچنا فطری بات ہے ،کیا کمیشن کو آج تک کوئی ایسا paper setterنہیں ملا جو معصوم طلباء کو تختہ مشق بنانے کے بجائے صرف اس مقصد کو مدنظر رکھے جو امتحان کا مقصد ہوتا ہے۔اس بات میں کیا حکمت عملی ہے کہ طلبا کو ایک مستقل خوف اور ناانصافی کے احساس میں مبتلا کر دیا جائے؟مجھے اس اذیت پسندی sadismکی آج تک سمجھ نہیں آ سکی۔میری خواہش ہے کہ کمیشن کے حکام ان بے مثال اساتذہ سے میری ایک ملاقات کروا دیں مجھے نہ صرف ان حضرات کی زیارت کا بے حد اشتیاق ہے بلکہ میں چاہتا ہوں کہ یہ لوگ مجھے قائل کر لیں یا خود قائل ہو جائیں کہ وہ طلبا کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔ طلباکمیونٹی میں بددلی مایوسی اور احساس مظلومیت پیدا کر کے ملک و قوم کی کوئی خدمت نہیں کر رہے بلکہ نئی نسل کو برگشتہ کر کے وطن عزیز کے مستقبل کو دائو پر لگا رہے ہیں۔ انگریزی کے پیپر کا پہلا سوالvocabulary (فرہنگ لغت)کے بارے میں ہوتا ہے ،اس سوال کی تیاری میں ان فاضل اساتذہ کو بہت محنت‘ کاوش‘ بھاگ دوڑ اور ریسرچ سے کام لینا پڑتا ہے۔ ان کی یہ لگن قابل تعریف ہے میں اس کی داد دیتا ہوں لیکن یہ ضرور عرض کروں گا کہ انگریزی کے مشکل ترین الفاظ کو بڑی بڑی ڈکشنریوں میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس سوال میں اکٹھا کر دینے کے پیچھے کون سا فلسفہ کارفرما ہے۔پچیس چھبیس سال کا نوجوان طالب علم کیا ڈاکٹر جانسن ہوتا ہے کہ وہ ان الفاظ کے معانی جانتا ہو گا۔ڈاکٹر جانسن ایک انگریز سکالر اور ادیب تھے جنہوں نے انگریزی کی پہلی لغت تیار کی تھی۔ ایک بار ایک لفظ کے معانی کی تلاش میں مجھے گورنمنٹ کالج لاہور کی لائبریری میں 35جلدوں کی انگریزی کی ڈکشنری دیکھنا پڑی۔ جی ہاں تقریباً 35جلدوں کی یعنی Aسے Zتک کے الفاظ 35جلدوں میں پائے جاتے ہیں سبحان اللہ ان عظیم پیپر سیٹرز کو تمغہ خدمت اور نشان امتیاز ملنا چاہیے۔ کمیشن کو چاہیے کہ ان عظیم نابغہ روزگار سکالرز کے اسمائے گرامی ‘ قوم کے سامنے لائے تاکہ ہمیں بھی پتہ چل سکے اس گدڑی میں کیسے کیسے لعل چھپے ہوئے ہیں ع ایں کار ازتو آید و مرداں چنیں کنند میں نے چند سال پہلے اس امتحان کو مدنظر رکھ کر دو ہزار الفاظ کی ایک فہرست بنائی تھی۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ اگر طالب علم یہ دو ہزار الفاظ کے معانی اور استعمال اچھی طرح جان لیں تو وہ اخبارات کے آرٹیکلز ‘ انگریزی میں لکھی گئی دوسرے مضامین کی کتابیں وغیرہ سمجھ سکتے ہیں اور خود بھی مناسب انگریزی لکھ سکتے ہیں۔ ایک اچھے طالب علم کو ان دو ہزار الفاظ کے علاوہ تقریباً3ہزار الفاظ پہلے سے آتے ہیں اور یوں تقریباً پانچ ساڑھے پانچ ہزار الفاظ کافی ہوتے ہیں۔ قارئین آپ حیران ہوں گے کہ ان دو ہزار لفظوں میں سے آج تک اس لغت کے سوال میں ایک لفظ بھی نہیں آیا طلباء مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم اس سوال کا کیا کریں اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ اگر صاحب یا زیر تبصرہ پروفیسر حضرات اس سوال کا جواب دے سکیں تو نہ صرف میں بلکہ ہزاروں طلباء بھی شکر گزار ہوں گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ دوازکار‘ پراسرار‘ اعصاب شکن‘ مشکل ترین الفاظ کا جاننا ان طلباء کے لئے کیوں ضروری ہے جو انتظامیہ کے چھوٹے موٹے افسر بنتے ہیں؟کیا ایک ایس پی ،ڈپٹی کمشنر ‘ کلکٹر وغیرہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ انگریزی کے لاکھوں الفاظ کا حافظ ہو۔ آپ کو ایک حکومتی کارکن چاہیے یا ڈاکٹر جانسن‘ٹی ایس ایلیٹ اور ویبسٹر چاہیے ع ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے جب کوئی طالب علم امتحان کے کمرے میں داخل ہوتا ہے تو بے چارہ تھوڑا یا زیادہ نروس ضرور ہوتا ہے۔ وہاں کی فضا میں ایک خوف‘بے یقینی اور گھبراہٹ کا احساس ہوتا ہے‘ایسے ہی پہلے روز پہلے ہی پرچے میں اس غریب پر خوفناک الفاظ کے میزائل چھوڑ دیے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بے چارے کے دوسرے سوالات پر بھی بہت برا اثر ہوتا ہے اور وہ اپنی اصلی استعداد سے بہت کم کا مظاہرہ کر پاتا ہے۔ بعدازاں اس کے باقی کے مضامین پر بھی برا اثر ہوتا ہے اور یوں بے چارے کا مکمل بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔