سنو!صاحب زادہ معین نظامی! اب تو تم اتنے بڑے صاحب ہو گئے ہو کہ جی چاہتا ہے تمھیں صاحب زادہ کی بجائے ’صاحب زیادہ‘ کہوں۔ میاں یہ بات ذہن میں رکھنا کہ یہ فقیرِ باتصویر تمھیں اس وقت سے جانتا ہے جب چونتیس سال قبل تم اس کلیہ شرقیہ میں ایک پرنس کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے۔ اس کے بعد بہت سا پانی اور پاپی پُلوں، انڈر پاسوں، اوور ہیڈ برجوں کے اوپر، نیچے، حتیٰ کہ دائیں، بائیں سے بے دھڑک گزرتے رہے۔ اب آ کے سنا ہے کہ تم اسی ادارے کے پرنسپل بن گئے ہو؟ میاں! میرے لیے حیران کن امر یہ ہے کہ تم نے اس بھولے بھالے پرنس کے ساتھ دیکھا بھالا ایک پَل لگانے میں زندگی کی ساڑھی تین دہائیاں داؤ پہ لگا دیں؟ (اس میں تمھارا دھیان ساڑھی کی طرف نہیں دہائی کی طرف جانا چاہیے) بھائی مَیں تو سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ اگر اس زیستِ مستعار کا ایک پَل چونتیس سالوں پر محیط ہے تو جو قافیہ پَیما اپنے آپ کو ڈنکے کی چوٹ، پل دو پل کا شاعر گردانتا ہے، اس کے عزائم کا دورانیہ کیا ہوگا؟ حضرت مَیں اب آپ کے اس ادارے سے باقاعدہ متعلق تو نہیں ہوں لیکن کبھی کبھار طلبہ و طالبات کے زبانی امتحان کے لیے بلایا جاتا ہوں، جو محض رسمی کارروائی ہوتی ہے۔ میری یہ شدید خواہش ہے کہ کبھی اس’ سُرخ رُو‘ ادارے کے زبانی بلکہ زمانی امتحان کے لیے بھی طلب کیا جاؤں اور ہمارے چلے جانے کے بعد اس مسکین پر جو گزری یا گزاری گئی اور جو کچھ اس نے اپنی ساکت آنکھوں سے دیکھا ، اسے اپنی متحرک آنکھوں سے محسوس کر کے ، اُس کے آف پرنٹ یا بلیو پرنٹ اس کی راہ میں سدا سے آنکھیں بچھائے رکھنے والے دُور و نزدیک مقیم خواتین و حضرات تک پہنچاؤں۔ میاں ایک مزے کی بات بتاؤں کہ پچھلے دنوں حسبِ عادت اپنے شعبۂ اُردو کو ڈھونڈتا ڈھانڈتا اس احمریں عمارت میں داخل ہوا تو اس رفیقِ دیرینہ و شفیقِ پارینہ کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ ایک بھیدی نے بتایا کہ اس بڑے میاں کو کسی اولڈ ہاؤس میں بھجوانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ پھر اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ سادہ سے شلوار کُرتے میں ملبوس وہ مانوس بوڑھا کالج کے ایک کونے میں پڑا سسک رہا ہے۔ اس کی نحیف گردن پہ کوٹ پتلون زیب تن کیے ایک بھاری بھرکم ہستی کہ جس کے منھ میں پائپ،سر پہ بدیسی ہَیٹ، چہرے پہ دیسی ہیٹ (Hate) سیاہ بُوٹ دھرے کھڑی ہے۔ نام اس سوٹڈ بُوٹڈ ولایتی صاحب کا مجھے کسی نےInstitute of Language and Litrature بتایا۔ اس کے ساتھ کھڑے مددگار نے سرگوشی کی کہ ہم پیار سے کبھی کبھی اسے ’ادارۂ زبان و ادبیات‘ بھی کہہ لیتے ہیں تو مائنڈ بالکل نہیں کرتا۔ اس رعب داب کے نیچے دبا بزرگ ناک منھ سے ہانپ رہا تھا، جسم اس کا کانپ رہا تھا،اوپر پاؤں رکھ کے کھڑا شخص لگتا پچھلے جنم میں سانپ رہا تھا، یہ فقیر دُور کھڑا اس قضیے کو بھانپ رہا تھا، بے فکری سے آتا جاتا ہجوم المیے کی شدت کو ڈھانپ رہا تھا۔ اسی دُبھدُبھے میں مجھے صدرِ شعبہ نام کے اُس معزز کی بھی فکر ہوئی جو اگرچہ بدن بدل بدل کے یہاں آیا کرتا تھا لیکن اُردو کی محبت میں اس قدر مستغرق ہوتا کہ بچوں کے لیے شادی کے دعوت نامے تک اپنی زبان میں شایع کرانے کے لیے تگ و دو کرتا رہتا۔ پھر پتہ چلا کہ اس مسکین کو بھی پچھلے دنوں ’ڈائریکٹر‘ نام کی کسی بابو نما مخلوق نے بری طرح (جسے بعض لوگ اچھی طرح بھی کہتے ہیں) قابو کر لیا تھا، چنانچہ وہ اسی ندامت کی تاب نہ لاتے ہوئے مضافات کی طرف منھ کر گیا۔ اکرم نام کے نائب قاصد نے اُسے راوی کا پرانا پُل عبور کرتے اور ہمارے ایک پرانے بیلی چودھری سرفراز نے اسے برج اٹاری کی حدود پھلانگتے اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھا تھا۔ مَیں نے تجسس کے مارے اسی مددگار سے دریافت کیا کہ یہ صاحب بھی اپنے آپ کو کبھی کبھار ’ناظم‘ کہنے کی اجازت دیتا ہے کہ نہیں؟ وہ میرے کان کے قریب منھ لا کے سرگوشی کے انداز میں بولا کہ آیندہ کبھی ایسی بات زبان پر نہ لانا کیونکہ اس نام کے عہدے دار پہلے ہی ادارے میں بہت ہیں۔ ایسا کرنے سے اس بات خطرہ پیدا ہو جائے گاکہ ’میوزیکل چیئر‘ والا کھیل روزانہ کھیلنا پڑے گا۔ شعبۂ فارسی اور پنجابی کے بارے میں بھی ایسی ہی دل دہلا دینے والی خبریں اس تواتر سے کان میں پڑتی رہیں کہ وہاں کھڑے ہونا محال ہو گیا۔ عربوں کی بابت البتہ سننے میں آیا کہ وہ اپنی صحرائی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس گنجان آباد علاقے کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ اس فقیر نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ایک مزید چرکے سے وقتی طور پر محفوظ رہا۔ میاں تمھارے اس ادارے میں پرانی وضع کی ایک ہی دل رُبا نشانی دیکھنے کو ملی ۔ ان کو دیکھ کے دل شاد ہوا، مدتوں پہلے پڑھا ہوا سبق یاد ہوا۔ اپنے زمانے میں ان کو جس حجرے میں متمکن دیکھا تھا، وہ آج بھی اُسی مقام پر اُسی حُسنِ ادا کے ساتھ براجمان تھے۔ خلوص بھی ویسا ہی دیکھا، اس لیے ان پر بے طرح پیار آیا۔ ان کے نام سے تو مجھے اس لیے بھی محبت ہے کہ اُن کے اسم کے آخر پہ ایک خالی ’ر‘ لگا دینے سے ذکرِیار کا حق مفت میں ادا ہو جاتا ہے۔ اس منشی ضیاء الحسن کی کیا پوچھتے ہو، اپنا ہمدمِ دیرینہ ہے۔ تمھارے اس کلیۂ شرقیہ میں ہم سبق میرا ایک سال تک رہا ہے۔ شعر و نقد میں بڑے بڑوں کے کان کترتا ہے۔ اس کے سر کے بال لگتا ہے میرے اور تمھارے بالوں کو ضرب تقسیم کر کے اُگائے گئے ہیں۔ کمرہ اس کا بھُولے بھٹکوں کا آستانہ بنا رہتا ہے، جہاں اس نے اپنے گرد کتابوں کا ایک مضبوط حصار کھڑا کر رکھا ہے۔ اس فقیر کا گمان کہتا ہے کہ اگر تیزی سے اکبری ڈھنگ اختیار کرتے تمھارے اس ادارے میں کبھی کسی انارکلی کو دوبارہ دیوار میں چنوانے کی ضرورت پیش آئی تو یہاں کی بھاری بھرکم جلدات سب سے زیادہ معاونت کریں گی۔ میاں اس عزیزی سے اپنی ایک اور نسبت کی بابت بھی تمھیں بتاتا چلوں کہ دنیاسے تہذیب و تمدن اور اخلاق و مروّت کا توڑا ہوجانے کے باوجود، حالات و واقعات آج بھی ہمیں ایک وحدت میں پروئے ہوئے ہیں۔ تمھاری تشویش رفع کرنے کی خاطر بتا دوں کہ اس وحدت کا نام وحدت روڈ ہے، جس کے کنارے ہم دونوں آباد ہیں۔ ایک وہ ’’تتلیوں کے موسم‘‘ والا میاں مرغوب حسین طاہر ہے، جو اپنی جملہ طہارتیں سمیٹے سورجوں اور سوزوکیوں کی سرزمین پہ جابسا ہے۔ سنا ہے وہاں وہ قلیل قامت اور خُرد چشم حسیناؤںکو اُردو پڑھاتا ہے۔ شاید اپنے باکمال شعر بھی سناتا ہو لیکن ظالم نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ اس کے برق تاثیر شعر سن کے ان حسیناؤں کی آنکھیں بھی پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں یا وہاں کوئی اور معاملہ ہے؟ لالہ بسمل نے بتایا کہ آہو چشم حسینہ تو اُس دیس میں چراغ لے کے ڈھونڈیں، تب بھی نہ ملے!! (جاری)