رب کی کھلی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جوامریکہ پوری دنیاپراپنی چودہراہٹ قائم کئے بیٹھاہے اسے اپنے ہی بپھرے عوام کی جانب سے رسوائی اورخجالت کاسامناہے۔بلاشبہ امریکہ کے ماتھے پرایسے سیاہ اور بدنما دھبے لگ چکے ہیں جو کبھی دھل نہیں سکیں گے ۔ جس امریکی ایوان میں مسلمانوں کی بستیاں تاراج کرنے، اجاڑنے اورمسلمانوں کوگاجر،مولی کی طرح کاٹ پھینکنے کے فیصلے ہوتے ہیں۔اس وقت جب یہ سطورقرطاس پرمنتقل کررہاہوں تو واشنگٹن میں اسی ایوان کے اندراورباہر ہنگامے ،فساداوربغاوت کے خوفناک مناظرجاری ہیں اورواشنگٹن میں کرفیونافذ ہے۔ ٹرمپ کے برپاکردہ فساد اوراسکے اشارے پرشروع ہونے والی بغاوت پرٹرمپ کاٹویٹر اکایونٹ بلاک کردیاگیا ہے اورکمپنی کی جانب سے اس اقدام کی وجہ ٹرمپ کی جانب سے ادارے کی پالیسی کی خلاف ورزی بتایا گیا ہے۔ ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے ہنگامے اوربلوے عین اس وقت ہوئے کہ جب اراکین کانگریس ریاستوں سے آنے والے ایلیکٹورل کالج ووٹوں کی توثیق کر رہے تھے۔نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپٹل ہل پر دھاوابولنے پرکہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ یہ بغاوت ہے۔ ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے بدھ کو کیپیٹل ہل کی عمارت پر اس وقت دھاوا بول دیا جب کانگریس میں ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کی صدارتی انتخابات میں فتح کی توثیق کے لیے اجلاس جاری تھا۔جو بائیڈن کی جیت کو چیلنچ کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو کئی بار بدھ6جنوری 2021ء کو واشنگٹن پر مارچ کرنے پر اکسایا جہاں پہلے ہی امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں الیکٹورل کالج کے نتائج کی توثیق کے لیے اجلاس طے تھا۔ ٹرمپ نے 20 دسمبر کو اپنی ٹویٹ میں لکھا تھاکہ ہمارا 2020 ء کے انتخابات کو اعدادوشمار سے ہارنا ناممکن ہے۔ اس لئے 6 جنوری 2021ء کوواشنگٹن ڈی سی میں بڑا احتجاج ہو گا۔ سب وہاں پہنچیں، یہ وائلڈ بے لگام ہو گا۔ٹرمپ کی کال پرٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے کانگریس کی عمارت کا رخ کیا جیسا کہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ انتخابی عمل کے خلاف اپنے غصے کے اظہار اور منتخب نمائندوں پر نتائج کو مسترد کرنے کے لیے دبا ئوڈالنے کی خاطر کیپٹل ہل کی عمارت کی طرف مارچ کریں۔مظاہرین عمارت کے اندر داخل ہونے کے بعد سینیٹ کے چیمبر اور دیگر اہم مقامات پر گھومتے رہے اورتوڑ پھوڑ کرتے رہے۔ ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ٹرمپ نے وائٹ ہائوس کے سامنے کھڑے مجمعے سے خطاب میں کہاتھا:ہم کیپٹل جا رہے ہیں اور ہم اپنے بہادر سینیٹرز اور کانگریس اراکین کی ہمت بڑھائیں گے۔بطور صدر اپنی آخری ممکنہ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو لڑنے کی تلقین کی۔انہوں نے کہا: ہم کبھی بھی ہمت نہیں ہاریں گے۔ ہم کبھی بھی ان بلشٹ نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔تقریر کے تقریبا 50 منٹ بعد ٹرمپ کے کچھ حامی ان کے جھنڈے لہراتے ہوئے کیپیٹل ہل کی طرف مارچ کرنے لگے جہاں ایسی افراتفری ہوئی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مظاہرین نے پولیس کی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے عمارت پر حملہ کیا اور قانون سازوں کے چیمبرز میں داخل ہو گئے۔ کانگریس میں سرٹیفیکیشن کا عمل روک دیا گیا اور نائب صدر مائیک پینس اور کانگریس کے ارکان کو عمارت سے نکال لیا گیا تھا۔ یو ایس کیپٹل ہسٹاریکل سوسائٹی کے تاریخ دانوں کے مطابق 1812ء کی جنگ کے بعد پہلا موقع ہے کہ امریکی پارلیمان کی عمارت پر دھاوا بولا گیا ہے۔ اگست 1814ء میں برطانوی فوجیوں نے واشنگٹن میں داخل ہونے کے بعد کیپٹل ہل کی زیرِ تعمیر عمارت کو آگ لگا دی تھی تاہم بارش کی وجہ سے یہ عمارت مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچ گئی تھی۔ امریکیوں کی جانب سے اس واقعے سے ایک برس قبل کینیڈا میں ایسے ہی واقعے کے ردعمل میں برطانوی فوجیوں نے وائٹ ہائوس سمیت دارالحکومت کی کئی اور عمارتوں کو بھی آگ لگائی تھی۔ خیال رہے کہ اس وقت تک کینیڈا بطور ملک موجود نہیں تھا بلکہ وہ برطانوی نوآبادیات کا مجموعہ تھا۔ بدھ6جنوری 2021ء کو پیش آنے والے واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دنیاکے کئی ممالک کے لیڈران کاکہناتھاکہ تشدد اور بلوے کی خبریں پریشان کن ہیں۔ ان کے مطابق انتقالِ اقتدار کا عمل پرامن طریقے سے جاری رہنا چاہیے اور اسے غیرقانونی مظاہروں سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ واشنگٹن کے ان مناظر نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔دنیاکے کئی ممالک کی طرف سے جوردعمل سامنے آرہاہے اس میں مجموعی طورپرایک ہی بات سامنے آرہی ہے اوروہ یہ کہ جمہوریت کے دشمن آج واشنگٹن ڈی سی کے مناظر دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے۔ نفرت آمیز الفاظ پرتشدد رویوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بڑے حامیوں میں شمار ہونے والے امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے بھی بدھ کو ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کیپیٹل ہل میں ہنگامہ آرائی کے بعد ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ کانگریس کے مشترکہ اجلاس کے دوبارہ آغاز کے بعد تقریر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا۔ اب مجھے ساتھ شامل نہ سمجھیں۔ بس بہت ہو گیا۔ انھوں نے کہا کہ جو بائیڈن اور کملا ہیرس قانونی طور پر منتخب شدہ رہنما ہیں اور 20 جنوری کو امریکہ کے صدر اور نائب صدر بنیں گے۔ ادھر وائٹ ہائوس کی نائب پریس سیکریٹری سارہ میتھیوز نے کیپیٹل ہل میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات کے بعد اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ مجھے ٹرمپ انتظامیہ میں خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل ہے اور ان پالیسیوں پر فخر ہے جنھیں ہم نے نافذ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ایک ایسا انسان جس نے کانگریس کے ہالوں میں کام کیا ہو۔ میں بہت زیادہ پریشان ہوں اس سب سے جو میں نے آج دیکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری قوم کو پرامن طور پر انتقال اقتدار کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل صدر ٹرمپ کی اہلیہ کے سٹاف کی سربراہ اور ٹرمپ کی سابق پریس سیکریٹری سٹیفینی گریم مستعفی ہوئیں۔ ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر چک شومر کا کہنا ہے کہ اب ہم 6 جنوری کو امریکی تاریخ میں تاریخوں کی بہت چھوٹی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں جس کی بدنامی ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے مندر کی توہین کی گئی۔