اکثر سیاسی و معاشرتی معاملات کے بارے میں جناب عمران خان کی تشخیص لاجواب ہوتی ہے۔ دو تین روز پہلے کسی تقریب میں ریاست مدینہ کے خدوخال واضح کرتے ہوئے عمران خان نے دل لگتی اور خدا لگتی بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو معاشرے رحمدلی سے خالی ہو جاتے ہیں وہ انسانوں کے نہیں جانوروں کے ٹھکانے ہوتے ہیں۔ وحشیانہ ہلاکت کا کوئی دلدوز واقع سامنے آتا ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہہ ہم اندر سے کتنے وحشی ہو چکے ہیں اور سنگدلی کی انتہائی پستی میں جاگرتے ہیں۔ تقریباً ایک ہفتہ قبل بہادر آباد کراچی میں ایک سولہ سالہ لڑکے کو چوری کے الزام میں ایک بنگلے والوں نے پکڑا اور پھر بنگلے کے مالکان نے اسے ایک پڑوسی کے ساتھ مل کر اسے درندگی سے لاتوں‘ گھونسوں اور لوہے کے راڈوں سے پیٹا اور مسلسل دوگھنٹے تک اسے پیٹتے چلے گئے حتیٰ کہ وہ مشکوک لڑکا موت کے منہ میں چلا گیا۔ اور افسوسناک بات یہ ہوئی کہ اڑوس پڑوس کے درجنوں انسان یا انسان نما حیوان یہ تماشا دیکھتے رہے مگر کوئی شخص آگے نہ بڑھا اور نہ کسی نے یہ درندگی کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عمران خان نے سچ کہا ہے کہ جس سوسائٹی سے رحمدلی اٹھ جائے وہ انسانوں کا نہیں درندوں کا معاشرہ ہو جاتا ہے۔ درندگی کے ایسے واقعات چند دنوں کے لئے شدت احساس کے تازیانے رسید کر کے ہماری دم توڑتی ہوئی انسانیت کو تھوڑی ہی دیر کے لئے جگاتے ہیں اور اس کے بعد وسائٹی اپنی پرانی ڈگر پر واپس آ جاتی ہے۔ اس واقعے پر چند دانشوروںنے اظہار تشویش کیا اور ماہرہ خان جیسی کچھ آرٹسٹوں نے آنسو بہانے ہیں اور بس۔ ریحان کا غمزدہ ادھ موا باپ انصاف کے حصول کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتا اور ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات کو شامل کرانے کے لئے میڈیا پر دہائی دیتا دکھائی دیتا ہے۔ چند روز میں اس کی صدا بھی اسی طرح ظالم معاشرے میں دم توڑ جائے گی جیسے اس کے بیٹے ریحان کی سانسیں دم توڑ گئی تھیں۔ درندگی کا کوئی ایسا واقعہ منظر عام پر آتا ہے ہمیں اپنے وحشیانہ پن کے کئی پرانے واقعات یاد دلا جاتا ہے۔ 15اگست 2010ء کو ایسا ہی ایک دل دہلا دینے والا واقعہ شہر اقبال سیالکوٹ میں پیش آیا اور مدتوں ہر صاحب اولاد اور صاحب احساس کو رلاتا رہا۔ اس واقعے میں دو بھائیوں مغیث اورمنیب کو چوری اور ڈاکے کے شبے میں ہجوم نے لاٹھیوں ‘ مکوں ٹھنڈوں اور لوہے کے راڈوں سے انتہائی وحشیانہ انداز میں مار مارکر موت کے گھاٹ اتار دیا تھااس سانحے میں ایک ناقابل یقین منظر نے ہماری سوسائٹی کی اخلاقی موت کے اعلان پر مہر تصدیق ثبت کر دی اور وہ یہ تھا کہ موقع پر 9پولیس جوان اور 1122کے کئی اہلکار موجود تھے کہ جنہوں نے بے لگام ہجوم کو وحشیانہ کارروائی سے روکنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ بعدازاں جوڈیشل انکوائری سے معلوم ہوا کہ دونوں خوش شکل نوجوان بھائی بالکل معصوم تھے بالکل بے قصور تھے۔ ایسے واقعات سے جو بنیادی سوالات سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں کہ معاشرہ قانون کواپنے ہاتھ میں کیوں لیتا ہے؟ معاشرہ خود ہی مسند انصاف پر کیوں براجمان ہو جاتا ہے؟ وحشیانہ کارروائی کرنے والے درندہ صفت انسانوں کو کسی کا ڈر خوف کیوں نہیں ہوتا؟ ان تمام واقعات میں ساری درندگی محض شک کی بنیاد پر کی گئی۔ تاہم اگر کوئی چور بھی ہو اور اگرغیر مسلح ہو اور آپ اس پر قابو پا لیں تو کیا اس کے بعد آپ کو اس کی پٹائی یامار کٹائی کا حق حاصل ہو جاتا ہے؟ اگر میں ایک ایک سوال کا جواب دوں تو یہ کالم نہیں مقالہ بن جائے گا۔ کالم کی تنگ دامانی اور نازک مزاجی ایسا بوجھ برداشت نہیں کر پاتی۔ مختصر بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے بے ہنگم ہجوم کو حقیقی زیور تعلیم و تربیت اور ڈسپلن سے روشناس کرانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ نہ ہمارے حکمرانوں نے نہ ہمارے عالموں نے نہ ہمارے دانشوروں نے نہ ہمارے میڈیا اینکروں نے اور نہ ہی ہمارے معاشرے کے ’’معماروں‘‘ یعنی استادوں نے۔ ذرا چند ملکوں کی پری سکول نرسریوں کا نظام تربیت ملاحظہ کیجیے تو آپ کو اندازہ ہو کہ دنیا کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں۔ یورپ میں فن لینڈ اور جرمنی کا اور ایشیا میں جاپان اور ترکی کی نرسریوں کا تربیتی پروگرام دیکھیے تو آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ نرسری میں بچوں کو خود اعتمادی‘ گروپ ورکنگ، باہمی ہمدردی، انسانوں جانوروں اور پرندوں کے ساتھ رحمدلی ‘ قانون کی حکمرانی ٹریفک قوانین کی پابندی‘ سڑک پار کرنے کے طریقے بتائے ‘ سمجھانے اور عملاً کر کے دکھائے جاتے ہیں۔ بچوں کو باور کروایا جاتا ہے کہ انہوں نے کس طرح ہر اس موقع پر قطار بنا لینی ہے جہاں تعداد ایک سے دو ہو جاتی ہے۔ میں نے امریکہ اور یورپ میں، اسکول بس پر سوار ہوتے ہوئے تین چار بچوں کو بارہا دیکھا کہ وہ از خود قطار میں کھڑے ہو جاتے تھے اسی طرح آئس کریم کی ریڑھی کے سامنے جہاں ایک سے دو بچے ہوتے وہ خود بخود قطار بنا لیتے ہیں۔ آپ کبھی تفریح کے اوقات میں پاکستان کے سرکاری سکولوں بلکہ اکثر پرائیویٹ سکولوں کی کنٹینوں کے سامنے بچوں کے ہجوم کو دیکھیے تو اس سے آگے کچھ کہنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ واضح ہو جائے گا کہ تربیت اور ڈسپلن ہماری کوئی ترجیح ہی نہیں۔ رحمدلی ‘ ریاست مدینہ کے ماتھے کا جھومر ہے۔عبداللہ بن عمر و بن العاص ؓ سے یہ حدیث مروی ہے کہ جناب مصطفی ؐ نے فرمایا کہ ’’رحم کرنے والے پر رحمن رحم کرتا ہے۔ تم اہل زمین پر رحم کرو بلندیوں پر موجود ذات تم پر رحم کرے گی‘‘ غالباً ایک حدیث میں سنگ دلی کو بدبختی قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ؐ نے مسلمانوں کو باہمی محبت و اخوت میں ایک جسم کی مانند قرار دیا۔ انسان تو انسان آپ نے حیوانوں اور پرندوں اور ہرجگر رکھنے والی شے سے ہمدردی رکھنے کو باعث اجر قرار دیا ہے۔ ایک اور حدیث کاخلاصہ یہ ہے کہ ایک شخص نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تو اللہ نے اس شخص کے عمل کو سراہا اور اس کی بخشش کر دی۔ جناب عمران خان سیاسی و معاشرتی مسائل کی تشخیص اتنی ہی لاجواب کرتے ہیں جتنی ممتاز طبیب حکیم نیئر واسطی مرحوم جسمانی امراض کی کیا کرتے تھے۔ مگر جب تشخیص سے آگے علاج تجویز کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو خان صاحب اسی طرح مجبور و بے بس دکھائی دیتے ہیں جیسے سابق حکمران تھے سیاسی و معاشی ایجنڈے کو تو چھوڑیے اگر خان صاحب معاشرے کو رحمدلی دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور بے لگام و بے ہنگم ہجوم کو ڈسپلن کی پابند قوم بنا دیتے ہیں تو تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ اگر اس تبدیلی کے بعد کسی ریحان یا کسی مغیث و منیب کی وحشیانہ موت کی ٹریجڈی نہ دہرائی گئی تو یہ خان صاحب کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔