امریکی صدر کا ایران پر انتہائی دبائو بڑھانے کی مہم اب چوراہے پر آن کھڑی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ ابھی تک یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ آیا عالمی دبائو بڑھانے کے لیے 2015ء کے عالمی معاہدے کے آخری مرحلے میں کس طرف بڑھا جائے۔ امریکہ کو جمعرات کے روز سے ڈیڈ لائن کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا عالمی کمپنیوں کو جو ایران کے ساتھ سول جوہری پروگرام کے تحت عالمی معاہدے کے مطابق تاحال ایران کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ امریکی پابندیوں سے استثنیٰ دیا جائے یا پھر ان پر بھی پابندی لگا دی جائے۔ ان کمپنیوں کا استثنیٰ ختم ہونے کے بعد ہی ایران کے خلاف دوسرے انتہائی مرحلے کا آغاز ہو گا اور یہی وہ عمل ہو گا جس سے ٹرمپ کے وہ حمایتی خوش ہوں گے جو ٹرمپ کے خلاف انتہائی اقدام کے حامی ہیں۔ کانگریس میں بھی ٹرمپ کے اقدام کی توثیق کی جائے گی مگر اس کے ساتھ ہی ایران کے ساتھ تنائو میں شدید اضافہ ہو گا اور کچھ امریکی یورپی ممالک کی طرف سے سخت مزاحمت کا بھی اندیشہ ہے۔ دو امریکی اہلکاروں کا خیال ہے کہ اس ڈیڈ لائن میں عارضی طور پر توسیع کر دی جائے گی۔ یہ بات ٹرمپ انتظامیہ کے اندر کے حالات جانے والے دو افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ اس حوالے سے امریکی انتظامیہ منقسم ہے۔ امریکہ پہلے ہی اہلکار کے مطابق دوبار پہلے ہی اعلان کو ملتوی کر چکا ہے۔ اس سے ناصرف ٹرمپ ایران کو ملے جلے سنگین دے رہے ہیں بلکہ ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین میں بھی شش و پنج کی کیفیت پائی جاتی ہے کہ آخر صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ تنائو کے ذریعے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ کے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے ان مبہم پیغامات سے خلیج فارس میں موجود امریکی افواج جو حالت جنگ میں ہیں۔ کسی غلط فہمی کے نتیجے میں جنگ چھڑ جانے کا اندیشہ ہے بڑھ گیا ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب آپ ابہام کا شکار ہوں اور کوئی واضح اور واشگاف پالیسی کا فقدان ہو تو فریق ثانی کو ملے جلے سگنل جاتے ہیں جن سے ابہام پیدا ہوتا ہے اور کسی بھی غلط انداز کی بنیاد پر حالات بگڑنے کا احتمال رہتا ہے۔ کریم سدجپور کیرنیج اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں ایرانی امور کے ماہر ہیں، ان کے مطابق ٹرمپ مسلسل ایران کے خلاف گھیرا بھی تنگ کرتے جا رہے اور بار بار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ ایران سے جنگ کے مخالف نہیں۔ ایران کے خلاف دبائو بڑھانے کا پبلک فیس مائیک پومپیو میں انہوں نے بہر حال اس بات کی تردید کی ہے کہ امریکہ کی ایران کے خلاف پالیسی واضح نہیں ہے تا ہم امریکی انتظامیہ کے حالیہ اقدامات جیسا سین اینڈ پال جو عدم مداخلت کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور ٹرمپ کے قریبی اتحادیوں کو تشویش میں مبتلا کرنے کے علاوہ یورپ کے اتحادیوں کو بھی مسلسل پریشان کیے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹرمپ انتظامیہ کو خلیج فارس میں تجارتی محاذوں کی با حفاظت گزارنے کے لیے اتحادی فورس کی تشکیل میں بھی پوری اتحادیوں کی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ٹرمپ نے 2015ء میں جس عالمی جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا اس معاہدے پر امریکہ کے علاوہ فرانس، برطانیہ، جرمنی، روس اور چین نے بھی دستخط کیے ہیں۔ جس کی روس سے ایران کے جوہری پروگرام کے باعث پابندیاں ختم کر دی گئی تھیں۔ ٹرمپ جو اس معاہدے کو تاریخ کا بدترین معاہدہ کہتے ہوئے دوبارہ پابندیاں لگا دی ہیں جن کی وجہ سے ایران کی پہلے سے کمزور معیشت مزید تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ ایران نے ان پابندیوں کا جواب معاہدے کے تحت یورینیم کی طے شدہ حد سے زیادہ یورینیم افزود کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اب ٹرمپ انتظامیہ کا امتحان یہ ہے کہ یورپ، روس اور چین کی جو کمپنیاں ایران کے سول جوہری پرگورام کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں ان پر پابندی کا اعلان کریں یا استثنیٰ برقرار رکھا جائے امید یہی کی جا رہی ہے کہ اس حوالے سے 90دن کا مزید استثنیٰ جاری کر دیا جائے۔ اسی اثنا میں ٹرمپ نے پال کے لیے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ جنہوں نے گزشتہ دنوں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف سے ملاقات کی تھی۔ معاہدے کے حامیوں کا خیال ہے کہ اس استثنیٰ سے معاہدے کو بچانے کی امید بڑھے جانے کی جو عملاً پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس استثنیٰ سے ایران کو پرامن جوہری پروگرام بالخصوص نیوکلیئر ایشوٹوپ جو ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں ان پر کام کرنے کی اجازت ہو گی۔ ٹرمپ کو اس حوالے سے منصوبہ کی کاپی پیش کر دی گئی ہے جس کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ وہ آسانی سے اس حوالے سے فیصلہ کر لیں گے تا ہم اس حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کے شدت پسند حلقے جن میں پومپیو اور جان لوئس شامل ہیں تذبذب کا شکار ہیں۔ یونین تو ایک عدلیہ سے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ جبکہ پومپیو ممکن ہے اس بارے میں یونین سے اتفاق کرتے ہوں مگر بظاہر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ امریکی اہلکاروں کے مطابق بولٹن کے ایم کے او کے دہشت گرد تنظیم کے قریبی تعلقات ہیں اور وہ اس قسم کے اجلاسوں اور تقریبات کے لیے بھاری رقوم بھی فراہم کرتے ہیں۔ (بشکریہ:ایران ڈیلی، ترجمہ:ذوالفقار چودھری)