کس نے دل میں مرے قیام کیا آسماں نے مجھے سلام کیا کیا بتاؤں کہ بندگی کیا ہے میں نے خود اپنا احترام کیا سب سے پہلے تو مجھے ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا ہے جو میرے کالم کا انتظار کرتے ہیں اور پھر فون کرکے کہتے ہیں کہ ناغے زیادہ نہ کیا کریں۔ ہم انہیں کیا بتائیں کہ کالم لکھنا ایک اچھی خاصی مشقت سے کم نہیں۔ آپ کولکھنے سے زیادہ پڑھنا پڑتا ہے۔ اگر پڑھ کر نہیں لکھیں گے تو آپ کو بھی کوئی نہیں پڑھے گا۔ اب تو رمضان شریف ہے جس میں ہماری مصروفیت بڑھ گئی ہے۔ ہم کیا اس میں تو ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق رحمتیں لوٹے گا۔ ایک احساس تو اس ماہ مقدس کا ہر دل میں جاں گزیں ہوتا ہے۔ اور تو چھوڑیے میرا گوالا جس کا دودھ اور پانی کا کاروبار ہے وہ بھی ایک سوچ رکھتا ہے۔ میں دودھ لینے گیا تو وہ بھینسوں سے ایک طرف سگریٹ نوشی کر رہا تھا۔ میں نے اسے ڈانٹ کر کہا کہ ایک تو اس نے روزہ نہیں رکھا، دوسرا وہ سگریٹ پی رہا ہے۔ اس نے بڑے رسان سے جواب دیا ’’چھوڑو شاہ جی، فیر تساں آکھو گے، روزہ رکھ کے دودھ وچ پانی پاندا اے‘‘ یعنی پھر کہیں گے کہ روزہ رکھ کر دودوھ میں پانی ڈالتا ہے۔ یعنی وہ کسی صورت اپنے فرض منصبی سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں۔ جو بھی ہے اس مہینے کی اپنی ایک خوشبو اور فضا ہے اور یہ کم نہیں کہ اللہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ نصیب کر دے جس میں اللہ بخشش کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ کیونکہ پھر یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی جزا اللہ خود ہے۔ یہ روزہ اللہ کیلئے مخصوص ہے۔ اسے اپنے روزہ دار کے منہ سے آنے والی بو کستوری سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ اللہ اس پر نازاں ہوتا ہے کہ اس کا بندہ محض اس کیلئے دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے اور تقویٰ اختیار کرتا ہے۔ اس ماہ میں انسان کی روٹین بدل جاتی ہے مگر میرے والد محترم کہا کرتے ہیں کہ روزہ رکھ کر سو جانا کوئی اچھی بات نہیں۔ آپ کی روٹین بدلنی چاہئے، کام نہیں رکنا چاہئے۔ اگر روزہ رکھ کے آپ اپنے دفتری کام یا ذمہ داری کو نہیں نبھا رہے تو روزہ کی روح فوت ہو گئی۔ اللہ نے بھی یہی کہا ہے کہ یہ صرف بھوکا اور پیاسا رہنا ہی نہیں ہے، ممنوع کاموں سے یکسر بچنا بھی ہے۔ وگرنہ یہ ایک مشقت محض کے سوا کچھ نہیں۔ اور جو اس ماہ کو سیزن سمجھ کر لگاتے ہیں انہیں بھی اللہ دیکھ رہا ہے۔ با بار ذکر کیا کرنا کہ ایسے مقدس مواقع میں باہر کے ممالک میں اشیاء کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں اشیائے خوردونوش کی گرانی آسمان سے باتیں کرنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ سیدھا سادا استحصال ہی تو ہے۔ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کا کہا گیا مگر یہ لوگ زیادہ سے زیادہ کمانے پر یقین رکھتے ہیں اس میں حکومت کا تو کوئی قصور نہیں۔ ہاں اگر پیٹرول وغیرہ کی قیمتیں بڑھی ہیں تو یہ آئی ایم ایف کا قصور ہے عمران خان کا چاہنا اور نہ چاہنا بھی اس میں کوئی وزن نہیں رکھتا۔ دولت کا بہاؤ باہر کی جانب ہے اور اندرونی سطح پر بھی ایک خاص سمت ۔ چلیے چھوڑیے۔ آپ سوشل میڈیا کی پوسٹیں انجوائے کریں۔ ایک آدھ تو ہمیں بھی اچھی لگی ’’لیموں 400 روپے کلو، یعنی 100 روپے کے سات آٹھ دانے۔ عوام شکنجبین کیلئے لیموں کی جگہ لیمن میکس بار استعمال کریں‘‘ یہ اعلان وزیر سائنس فواد چوہدری کی طرف سے لگایا گیا ہے۔ ویسے فواد چوہدری بھی کمال کے آدمی ہیں انہیں ہر جگہ بولنے کا شوق ہے اب مفتی منیب سے پھڈا ڈال لیا ہے بندہ پوچھے چاند دیکھنے کے حوالے سے مفتی فواد کی کیا ضرورت ہے۔ کچھ لوگ فروٹ کا بائیکاٹ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ پچھلے سال بھی یہ مہم چلی تھی مگر کامیاب نہیں ہوئی۔ لوگ ثواب سمجھ کر بھی گراں چیزیں خرید لیتے ہیں۔ پھر کیلے کے بغیر تو چاٹ نہیں بنتی اور کیلا 200 روپے درجن ہے۔ باقی اجزائے چاٹ بھی کچھ کم مہنگے نہیں۔ لے دے کہ ایک تربوز سستا ہوا ہے مگر افطاری یا سحری میں تربوز کا کیا کام۔ لوگ ہیضے سے بھی تو ڈرتے ہیں کہ تربوز کھانے سے اونچ نیچ ہو سکتی ہے۔ مہنگائی تو لوگوں کو ہر طرف سے گھیر رہی ہے۔ ایک نمازی بول رہا تھا۔ کہنے لگا کہ آپ ہمارے بچوں کے بارے میں کیوں نہیں لکھتے کہ یونیورسٹیوں میں سمسٹر کی فیسیں ڈبل کر دی گئی ہیں اگر پہلے تیس ہزار تھی تو اب ساٹھ ہزار ہے۔ انہیں ہائر اتھارٹیز کی جانب سے حکم نامہ مل چکا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ عمران کیلئے تو تعلیم پہلی ترجیح تھی۔ سفید پوش اور تنخواہ دار کیلئے جینا مشکل ہو گیا ہے اور یہی لوگ تبدیلی کے خواہشمند اور عمران خان کے سپورٹر تھے اور خان کی اصولی مہنگائی انہی پر برق بن کر گر رہی ہے۔ ہم تو پہلے ہی ترے حق میں تہی دست ہوئے بجلیاں ہم پہ گرانے کی ضرورت کیا تھی بات کدھر سے کدھر نکل گئی کہ ہمیں تو رمضان اور تراویح کی بات کرنا تھی۔ کچھ برسوں سے میں بیس تراویح کی پابندی کر رہا ہوں۔ شروع رمضان میں لوگ جوق در جوق آتے ہیں مگر پھر کم ہوتے ہوتے دو صفیں رہ جاتی ہیں۔ ایک بات کی طرف میں تراویح پڑھانے والوں کی توجہ دلاؤں گا۔ وہ پہلی آٹھ تراویح میں سپارے کے قریب تلاوت کر جاتے ہیں اور باقی میں اٹھک بیٹھک رہ جاتی ہے۔ کیا وہ آٹھ تراویح پڑھنے والوں کو انگیج کرنا چاہتے ہیں کہ اگر وہ آ گئے ہیں تو زیادہ سے زیادہ قرآن سنا دو۔ یہ طریقہ اچھا نہیں۔ نئے آنے والوں یا کبھی کبھی آنے والوں کو ترغیب دیں۔ اگر آپ ان کو زیادہ سنا کر خوش ہو رہے ہیں تو وہ آنا ہی چھوڑ دیں گے اور زیادہ سمجھدار آخری آٹھ تراویح پڑھ لیں گے۔ آپ جنہیں فصلی بٹیرے کہتے ہیں وہ بھی مسجدوں کی رونق ہیں۔ انہیں پیار دیجیے، پتہ نہیں کون پکا نمازی بن جائے۔ آپ کو مردخلیق بننا ہو گا جو آتا ہے وہ بھی خود کہاں آیا ہے۔ روزہ اپنے بچوں کے ساتھ کھولیے کہ ان میں شوق پیدا ہو۔ میں تو اس کا اہتمام کرتا ہوں۔ افطاری کی تیاری کرتے ہوئے بچے کتنے پیارے لگتے ہیں، خاص طور پر وہ چھوٹے بچے جنہوں نے چڑی روزہ رکھا ہوتا ہے وہ دسترخوان پر قابض ہوتے ہیں یہ روزے ہی کی برکت ہے مگر افطاری میں لکڑ پتھر بھی ہضم ہو جاتا ہے۔ پکوڑے اور دوسرے کرارے لوازمات۔ ڈاکٹر دہائی دیتے رہتے ہیں کہ یہ نہ کھاؤ وہ نہ کھاؤ مگر جو بدپرہیزی میں مزہ ہے اس کا مت پوچھیے۔ یہ قدرت ہی جانتی ہے کہ روزے کی تاثیر سے کئی بیماریاں خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہیں کہ جراثیموں کو کچھ میسر نہیں آتا۔ مگر روزہ اس لیے نہیں رکھنا کہ صحت کیلئے اچھا ہے یہ تو اللہ کا حکم ہے۔ تراویح پڑھنے والے ایک اور تجربہ کرکے دیکھیں کہ گھر سے ترجمہ پڑھ کر جائیں اور قرآن سننے کا مزہ دوبالا ہو جائے گا۔