چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا‘ کیا اس میں کچھ تعجب کی بات ہے؟ تعجب تو جب تھا اگر انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا ہوتا‘ آفتاب بیورو کریٹ تو ہیں مگر وہ قمر الزمان نہیں جو ریڑھ کی ہڈی سے محروم ہونے کے سبب اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہو سکتے‘ آفتاب سلطان مضبوط قوت ارادی کے ساتھ بہادر انسان ہیں‘ اپنی عزت نفس کے لئے حساس ‘ اپنے اور خاندان کے نام و نمود پاس اور لحاظ رکھنے والے‘ 21جولائی 2022ء کو چیئرمین نیب کی حیثیت سے ان کی تقرری کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی‘ اسی دن انہی اخبارات میں تحریک انصاف کے شفقت محمود اور فرخ حبیب کے بیانات بھی تھے‘ شفقت محمود جو خود بھی سابق بیورو کریٹ ہیں انہوں نے کہا وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ’’وفادار‘‘ کو چیئرمین نیب مقرر کر دیا ہے‘ ساتھ ہی تحریک انصاف کے وکیل اظہر صدیق نے اس تقرری کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا‘ تحریک انصاف کے چھوٹے لیڈروں کی خبریں نمایاں نہیں تھیں ‘ ٹیلی ویژن میں بھی نشر نہ ہو سکیں شاید اسی لئے نئے چیئرمین نیب ان خبروں کی طرف متوجہ نہیں ہوئے‘ خیال گزرا کہ اگر عمران خاں نے آفتاب سلطان کے خلاف بات کی تو بندۂ درویش یہ بوجھ اٹھانے سے انکار ہی نہ کر دے‘خوش قسمتی سے ’’چھٹے ہوئے‘‘ لوگوں کے ہاتھوں کوئی اچھا کام ہو ہی گیا ہے تو اسے رائگان کیوں جانے دیا جائے ‘ اگر اس نے تقرری کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو الیکشن کمشنر کی طرح ’’باقیات‘‘ میں سے کوئی یہ کرسی آن سنبھالے گا پوری قوم کو اسے تین برس بھگتنا پڑے گا۔ چنانچہ اسی دن یعنی 21جولائی کو بذریعہ ’’وٹس ایپ‘‘ خاں صاحب کو پیغام بھیجا کہ ’’سابق آئی جی اور ڈائریکٹر جنرل آئی بی کو چیئرمین نیب مقرر کردیا گیا وہ مضبوط کردار کا طاقتور افسر ہے‘ اس پر انگلی اٹھی تو وہ چھوڑ کر چلا جائے گا، اس لئے آپ کوئی منفی تبصرہ نہ کریں‘ ان کا جواب تھا ’’اوکے‘‘ ان کی چیئرمین نیب کے عہدے سے دستبرداری کی خبر ’’میاں شفیق‘‘ کی زبانی معلوم ہوئی تو پھر سے خان صاحب سے کہا ’’وہ کر گزرا ہے‘‘ وہ تو چلا گیا لیکن یہ اچھا نہیں ہے تحریک انصاف کی خاطر نہ قوم کے لئے ‘ نہ ہی احتساب کے ادارے کے لئے‘ اب کوئی دوسرا ’’قمر الزمان‘‘ آ جائے گا‘ تین سال کے لئے بدعنوان حکمران اور اہل کار شادیانے بجائیں گے اور قوم کڑھتے رہنے میں اپنا خون جلایا کرے گی۔جو جانتے ہیں انہیں ایسی امید تھی۔ آفتاب سلطان دراز قامت‘ مضبوط کاٹھی کے وجیہہ و شکیل شخصیت کے مالک ہیں‘ سنجیدہ‘ متین پروقار‘ پرانے وضعدار دور کی روح جس نے ہمارے زمانے میں جنم لیا۔ان کا خاندان پاکستان بننے سے پہلے بھی نامور تھا اور نیک نام بھی لائل پور کی جب بنیاد رکھی گئی تب یہ خاندان مشرقی پنجاب سے آ کر آباد ہوادسوہا نامی گائوں میں جہاں یہ ’’آرائیں‘‘ قبیلہ یا برادری کے لوگ رہائش پذیر تھے۔انہوں نے ہائی سکول بنایا اور طالب علموں کے لئے ہوسٹل تعمیر کیا‘ میلوں میل تک کوئی دوسرا سکول نہیں تھا۔گورنمنٹ کالج فیصل آباد(لائل پور) شروع میں ہائی سکول تھا لیکن یہ بہت بعد کی بات ہے پہلا ہائی کول ڈسوہبہ کا ہائی سکول بھی تھا دور دراز سے لوگ آ کر یہاں تعلیم حاصل کرتے‘ قیام پاکستان سے پہلے اسی خاندان کے ’’مہر صادق‘‘ ایم ایل تھے غالباً وہ وزیر تعلیم بھی رہے‘ آفتاب کے والد چوہدری سلطان بھی قومی اسمبلی کے ممبر تھے بطور ایم این اے ایک حادثے کا شکار ہو کر وفات پائی۔86ء میں بننے والی پارلیمنٹ کی ممبر بیگم سروری صادق ان کی ساس تھیں‘ چوہدری سلطان کی پانچ اولادیں سب کے سب ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ، دو بہنیں اور خود آفتاب سلطان نے سی ایس ایس کیا‘ باقی دو بھائی ڈاکٹر ہیں‘ ایک امریکہ اور دوسرے فیصل آباد میں ہیں۔ راقم الحروف اور آفتاب گورنمنٹ کالج لائل پور میں ہم مکتب اور ہم جماعت بھی تھے۔ میاں شفیق چیئرمین پاکستان چیمبر اور آف کامرس‘ چوہدری سرور(سابق گورنر) چوہدری محمد شفیق(صادق آباد) سابق وزیر صاعت‘ رانا مقبول‘ آئی جی آ جکل سینیٹر ہوتے ہیں‘ آئی جی چوہدری تنویر اور انعام الرحمن سحری بھی تھے‘ آفتاب کالج کی سیاست میں کبھی متحرک نہیں رہے‘کالج کے بعد ان سے پہلی ملاقات گورنمنٹ ہوسٹل(ایم این ہوسٹل) میں ہوئی جب بیگم سروری صادق صاحبہ دوسری مدت کے لئے ایم این اے بننے کے لئے انتخاب میں حصہ لے رہی تھیں‘ ان کے محکمہ پولیس میں طویل ملازمت کے دوران ان کے دیانتدار اور بااصول ہونے کے لئے یہ دلیل ہی کافی ہے کہ ہر سیاسی حکومت کے دور میں انہیں بہت کم مدت کے لئے فیلڈ میں بھیجنے کا خطرہ مول لیا گیا‘ زیادہ عرصہ سپیشل برانچ میں رہے‘ مارشل لاء کے زمانے بھی ان کے لئے استوار نہیں تھے‘ سرگودھا ڈویژن پولیس کے بطور ڈی آئی جی سربراہ ہوا کرتے تھے پرویز مشرف نے ریفرنڈم کروانے کا فیصلہ کیا تو پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول پنجاب بھر کی انتظامیہ کو ہموار کرنے کے لئے دورے پر نکلے، سرگودھا میں ان کا سامنا آفتاب سلطان سے ہوا ڈویژن کے اعلیٰ افسران کی مٹینگ میں انہوں نے ریفرنڈم میں کردار ادا کرنے کے لئے کہا تو کسی نے سرتسلیم خم کر دیا لیکن ڈی آئی جی صاحب کھڑے ہوئے اپنی کھردری اور پاٹ دار آواز میں صاف انکار کر دیا اور کہا کہ ہم نے اپنی کتاب میں لکھے قواعد کے مطابق کام کرنا ہے ،اس سے باہر بالکل گورنر صاحب جو ہم مکتب تھے، چپ ہو رہے۔ اس کے بعد اعلیٰ حکام کی طرف سے انہیں براہ راست احکامات نہیں ملے ہیں۔ شہباز شریف صاحب وزیر اعلیٰ بنے تو انہیں لاہور کے کسی مضبوط افسر کی ضرورت ہوئی انہوں نے ایس ایس پی لاہور کے لئے تقرری کی خاطر آفتاب کو انٹرویو کے لئے بلا بھیجا ماڈل ٹائون کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی شہباز شریف نے لاہور میں تقرری کے لئے کہا تو بولے مجھے منظور ہے لیکن میں آپ کے حکم پر بندے نہیں ماروں گا یہ عدالتوں کا کام ہے کہ وہ سزا کا فیصلہ کریں، وزیر اعلیٰ بولے آپ کو پتہ ہے صبح سے شام تک کتنے افسران قطار میں کھڑے تعیناتی کے لئے انتظار کرتے ہیں تو جواب دیا میں قطار میں نہیں کھڑا آپ نے بلایا تو ملاقات کے لئے حاضر ہو گیا ہوں‘ محنت اور دیانتداری کے ساتھ اصول اور قانون اور قواعد مطابق اس کے علاوہ کچھ نہیں‘ نتیجہ معلوم ہے وضاحت کی ضرورت نہیں سادہ اطوار آفتاب اعلیٰ ترین عہدوں پر رہے‘ آئی جی پنجاب اور ڈائریکٹر جنرل آبی بھی لیکن ان کی رہائش گاہ کے باہر ٹینٹ لگے نہ گارڈ کھڑے کئے گئے‘پرائیویٹ سفر اپنا پٹرول اپنی گاڑی‘ والدین کی طرف سے ملا فرنیچر جوں کا توں رکھا ہے‘ 1966ء ٹیوٹا گاڑی ہاں اعلیٰ ترین گلاب کی درجنوں اقسام اعلیٰ ذوق کی پہچان ہیں۔ شہباز نے بطور وزیر اعظم صرف ایک اچھا کام کیا تھا‘ آفتاب نے اس پر بھی خطِ تنسیخ پھیر دیا۔