ناروے کی سمندری حدود میں جب 1979 ء میں پیٹرولیم کے ذخائر نکالنے کا کام شروع ہوا ،تو یورپ و امریکہ کے متعددمسیحی اور یہودی اداروں نے اوسلو حکومت پر دباوٗ دیا کہ یہ تیل اسرائیل کو ارزاں نرخ پر یا مفت مہیا کرایا جائے۔ ان کی دلیل تھی، چونکہ تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک اسرائیل کو تیل فراہم نہیں کرتے ہیں اور ایران میں مغرب نواز رضا شاہ پہلوی حکومت کا تختہ پلٹنے سے انرجی کی فراہمی اور زیادہ مشکل ہوگئی ہے، اسلئے ناروے کو اپنے وسائل یہودی ریاست کی بقا ء کیلئے وقف کردینے چاہئے۔ ناروے کی 150رکنی پارلیمان میں اسوقت 87اراکین فرینڈز آف اسرائیل تنظیم کے سرگرم رکن تھے۔مگر کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ناروے کے وزیر اعظم اوڈوار نورڈلی نے فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے راہنماوٗں اور عرب ممالک کا موقف جاننے کی خواہش ظاہر کی۔ بیشتر عرب ممالک نے اسرائیل کو انرجی مہیا کروانے کی پر زور مخالفت کی ۔ ان کی دلیل تھی کہ اس کے بعد اسرائیل اور بھی زیادہ شیر ہو جائیگا اور امن مساعی مزید دشوار ہو جائیگی۔ مگر پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات نے ناروے کے وزیر اعظم کو بتایا کہ’’ چاہے آپ اسرائیل کو تیل فراہم کریں یا نہ کریں، وہ یہ تیل حاصل کرکے ہی رہیگا۔ براہ راست نہ سہی بالواسطہ دنیا میں کئی ملک اور افراد ہیں جو یہ خرید کر اسرائیل کو سپلائی کریں گے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ناروے اسرائیل کے ساتھ اپنی خیر سگالی کا خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر فلسطینی قیادت اور اسرائیل کے درمیان پس پردہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرواکے ثالث کا کردار نبھائے۔‘‘ ناروے کی کاوشوں کی صورت میں 14 سال بعد اوسلو اکارڈ وجود میں آیا۔ جس کی رو سے فریقین نے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی فارمولہ پر مہر لگائی ۔ یاسر عرفات کو فلسطینی اتھارٹی کا سربراہ تسلیم کیا گیا اور مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی ان کے حوالے کی گئی۔فلسطین کو مکمل ریاست کا درجہ دینے، سرحدوں کا تعین، سکیورٹی ، ریفیوجی ایشو اور القدس یا یروشلم شہر کے مستقبل کے بارے میں فریقین نے مزید بات چیت کیلئے حامی بھر لی۔ اندازہ تھا کہ اس دوران اعتماد ساز ی کے اقدامات ، ملاقاتوں کے سلسلہ اور پھر فلسطینیوں اور عام یہودی آباد کاروں کے درمیان رابط سے ایک اعتماد کی فضا قائم ہو جائیگی ، جس سے پیچیدہ مسائل کے حل کی گنجائش نکل آئیگی۔ اسرائیل نے مکمل فلسطینی ریاست کے قیام اور ریفوجیوں کی واپسی کے معاملے میں اڑچنیں پیدا کرکے اوسلو اکارڈ کی پہلے ہی روح نکال ہی دی تھی، مگر اب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطین کے حوالے سے جو روڈ میپ جاری کیا ہے، اس نے تو اوسلو اکارڈ کو مکمل طور پر دفنا دیا ہے۔ اوسلو اکارڈ میں تو ایک فلسطینی ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر ٹرمپ کے پلان جس کو ’’ڈیل آف سنچری‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے میں بتایا گیا ہے کہ فلسطین ، جو کہ اب صرف مغربی کنارہ اور غزہ پر مشتمل ہوگا،مکمل ریاست کے بجائے اسرائیل کی زیر نگرانی اب محض ایک Protectrate کی شکل میں ہوگا، جس کی سیکورٹی اور دیگر امور اسرائیل طے کریگا۔ نئی فلسطینی حکومت فوج نہیں رکھ سکے گی،مگر ایک پولیس فورس تشکیل دے سکے گی۔ اس کی سرحدوں کی حفاظت اسرائیل کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگی ۔یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ غزہ سے فلسطینوں کا مکمل انخلا ء کرکے ان کو صحرائے سینا میں بسایا جائیگا اور غزہ کا علاقہ مکمل طور پر اسرائیل کے حوالے کیا جائیگا۔ 1993ء میںاوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتہ میں ایک فلسطینی اٹھارٹی کا قیام عمل میں آیاتھا۔ جس سے 4 ملین کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غزہ اور اردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارہ میں تقسیم کیا گیاتھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارہ کا انتظام الفتح کی قیادت والے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے پاس ہے ، وہیں غز ہ میں اسلامک گروپ حماس بر سر اقتدار ہے۔ جہان پی ایل او اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، حماس یہودی ریاست کے وجود سے انکاری ہے۔ چونکہ مغربی کنارہ اور غزہ کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے، اسلئے ا مریکی صدر کے مطابق ان کو منسلک کرنے کیلئے اسرائیلی علاقوں سے 30میٹراوپر ایک 100کلومیٹر طویل فلائی اوور بنایا جائیگا ۔مغربی کنارہ میں جو تقریباً 15یہودی علاقے ایک طرح سے زمینی جزیروں کی صورت ہیں،ان کو اسرائیل کے ساتھ منسلک کرنے کیلئے مخصوص شاہرائیں تعمیر کی جائینگی۔ ایک سال قبل دہلی کے دورہ پر آئے ایک یہودی عالم ڈیوڈ روزن نے مجھے بتایا تھا کہ سابق امریکی صدر بارک اوبامہ جس خاکہ کو تیار کرنے میں ناکام ہو گئے تھے، ٹرمپ ، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے تعاون سے فلسطین کے حتمی حل کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ایئر لینڈ کے چیف ربیًٍٍ ڈیوڈ روزن اسرائیل کی چیف ربائیٹ یعنی مذہبی امورکے رکن ہیں اور امریکی جیوش کونسل (اے جے سی) کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔مشرق وسطیٰ میں امن مساعی اور خصوصاً اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیا ن بیک چینل تعلقات کے حوالے سے وہ خاصے سرگرم ہیں۔ وہ سابق سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی ایما پر قائم کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل سینٹر فار انٹر ریلیجنز اینڈ کلچر ڈائیلاگ کے بورڈ ممبر بھی ہیں۔مشر ق وسطیٰ میں تین عوامل اسوقت اسرائیل کو امن مساعی کیلئے مجبور کر رہی ہے وہ یہ ہیں کہ تمام تر جارحانہ کاروائیوں کے باوجود یہودیوں اور اسرائیلی حکام کو ادراک ہو گیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ ویسے تو اس کا اندازہ 1973ء کی جنگ مصر اور بعد میں 2006ء میں جنگ لبنان کے موقع پر ہی ہوگیا تھا ، مگر حالیہ کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔اسلئے دنیا بھر کے یہودی چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اسکا وجود تسلیم کرایا جائے۔یہودی عالم کاکہنا تھا کہ توسیع پسندی اب کسی بھی صورت میں اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ فوجی اعتبار سے اسرائیل چاہے تو سرحدوں کو وسیع کرنے کی قوت رکھتا ہے، مگر مقبوضہ علاقوںکی آبادی کو بھی پھر ملک میں شامل کرنا پڑے گا، جس سے ظاہر ہے کہ یہودیوں کے اقلیت میں تبدیل ہونے کا خدشہ لاحق ہوگا۔ دنیا بھر میں یہودی محض ایک کروڑ ہیں ، جن میں 60لاکھ کے قریب اسرائیل میں رہتے ہیں۔ اسلئے فلسطیینیوں سے زیادہ اسرائیلیوں کیلئے بھی اپنی بقاء کیلئے سرحدوں کا تعین کرنا ضروری ہے۔ دوسرا اسرائیلی علاقوں میں مسلمانوں کی افزائش نسل یہودیو ں سے کئی گنا زیا دہ ہے۔ 1967ء میں عرب ،اسرائیل کی آبادی کا 14فیصد تھے ، جو اب لگ بھگ 22 فیصد ہو چکے ہیں۔یہ وہ مسلمان ہیں جنہوں نے اسرائیل کی شہریت تسلیم کی ہوئی ہے اور اسرائیلی ۔عرب کہلاتے ہیں۔تیسرا اہم سبب یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مشرقی ساحل پر حالیہ کچھ عرصے سے تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو رہے ہیں۔ کہاں وہ اسرائیل ، جہاں پانی اور تیل کا فقدان تھا، وہ اب خطے میں عرب ممالک کو پیچھے چھوڑ کر انرجی کا مرکز بننے والا ہے۔ اسلئے وہ اب کسی بھی صورت میں امن کو یقینی بنانے کے ساتھ پوری سمندری حدود پر کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔(جاری ہے)