حیفہ کے پاس سمندر سے صاف پانی کشید کرنے کا دنیا کا سب سے بڑا پلانٹ لگا کر پانی کے معاملے میں پہلے ہی اسرائیل اس تک خود کفالت اختیار کر چکا ہے کہ وہ اب اردن کو بھی پانی سپلائی کرتا ہے۔ اسرائیل نے اب اردن اور مصر کو گیس کی ترسیل شروع کر دی ہے۔ اس وقت مصر کو اسرائیل سے 85ملین کیوبک میٹر گیس فراہم ہورہی ہے جس سے اسرائیل سالانہ 19.5بلین ڈالر کماتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے بس چند سال قبل تک اسرائیل ، مصر سے تیل و گیس خریدتا تھا۔ حیفہ سے 100کلومیٹر دو رسمندر میں تامار اور لیویاتھان کے مقام پر اسرائیل نے گیس کے وسیع ذخائر دریافت کئے ہیں۔ بحیرہ روم میں دیگر مقامات پر بھی انرجی کے ذخائر موجود ہیں جن پر بظاہر فلسطینیوں کا بھی دعویٰ ہے۔ اس سمندر کا 90فیصد اقتصادی زون اسرائیل کی تحویل میں ہے ۔لیویاتھان کے مقام پر ہی 21ٹریلین کیوبک فیٹ کے گیس کے ذخائر موجود ہیں، جو اگلے 40سال تک اسرائیل کی اپنی ضروریات کیلئے کافی ہیں۔ پچھلے ماہ یونان کے دارلحکومت ایتھنز میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن ہاہو نے 6بلین ڈالر لاگت کی ایسٹ میڈ پائپ لائن بچھانے کے معاہدہ پر دستخط کئے، جو اسرائیل سے قبرص ہوتے ہوئے یونان اور اور اٹلی اور دیگر ممالک کو گیس کی ترسیل کرے گی۔ اس پائپ لائن سے یور پ کی انرجی کی 10فیصد ضروریات پوری ہونے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ مگر صدر ٹرمپ اور انکے معاونین کی طرف سے فلسطینی مسئلہ کا جو فارمولہ منظر عام پر آیا ہے، اس سے شاید ہی امن کی امید بندھ سکتی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ اس خطے کیلئے مزید پیچیدگیاں پیدا نہ کردے۔ اسکے مطابق فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کی واپسی کا معاملہ ہمشہ کیلئے بند ہو جائیگا۔181صفحات کے اس پلان میں عرب ممالک سے اپنی مرضی سے ہجرت کرنے والے یہودیوں اور بزور طاقت بے گھر ہوئے فلسطینی ریفوجیوں کو ایک ہی پلڑے میں رکھا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر اسرائیل عرب ممالک سے آئے یہودی پناہ گرینوں کو اپنے یہاں ضم کرسکتا ہے تو عرب ممالک کو بھی فلسطینیوں کو مکمل شہریت دیکر پناہ گزینوں کے باب کو بند کردینا چاہئے۔ دنیا بھر میں اس وقت 70لاکھ فلسطینی مختلف ممالک میں وطن واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ فارمولہ میں عرب ممالک سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے، کہ سات دہائی قبل جو یہودی ان کے ممالک سے ہجرت کرکے اسرائیل میں بس گئے ہیں، ان کو پیچھے چھوڑی ہوئی جائیدادوں کا معاوضہ دے دیا جائے۔ اسرائیل سے تاہم یہ مطالبہ نہیں کیا گیا ہے کہ وہ بھی ان فلسطینی پناہ گزینوں کو ہرجانہ دے، جن کو اس نے اپنی جائیدادوں سے زبردستی بے دخل کردیا ہے۔ یہی ڈنڈی قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں بھی اپنائی گئی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو بلا شرط اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ مگر اسرائیلی تحویل میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کیلئے شرطوں کی ایک لمبی فہرست درج کی گئی ہے۔ قتل، اقدام قتل، دہشت گردی، اسرائیلی شہریوں،فوج یا اسکے سیکورٹی دستوں پر حملوںمیں ملوث فلسطینیوں کو کسی بھی صورت میں رہائی نہیں ملے گی۔ آخر میں اسرائیلی حکا م کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی صوابدید پر فلسطینی قیدیوں کو رہا کرسکتے ہیں۔ اس پلان کی رو سے ا القدس یا یروشلم شہر کو تقسیم نہیں کیا جائیگا، بلکہ اسکا مکمل کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہیگا۔ شہر میں مکینوں کو اختیار ہوگا کہ وہ اسرائیل یا فلسطین کے شہری ہونگے۔ الاقصیٰ حرم پر جو ں کی توں پوزیشن برقرار رہیگی، یعنی یہ بدستور اردن کے اوقاف کی زیر نگرانی رہیگا۔ ویسے سعودی عرب اس کے کنٹرول کا متمنی تھا تاکہ ریاض میں موجود فرمانراو سبھی تین حرمین یعنی مکہ ، مدینہ و مسجد اقصیٰ کے متولی یا خادم قرار پائیں۔ اسرائیل مسجد اقصیٰ کے تہہ خانہ تک رسائی کا خواہشمند ہے۔ جس کیلئے اس نے مغربی سرے پر کھدائی بھی کی ہے ، تاکہ وہاں تک پہنچنے کیلئے مسجدکی دیواروں کے نیچے سے ایک ٹنل بنا سکے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ تہہ خانہ میں ہی معبد سلیمانی کے کھنڈرات یا قبلہ اول موجود ہے۔ شہر کی مونسپل حدود کے باہر کفر عقاب اور سہانات کے علاقوں کو مشرقی یروشلم یا القدس کا نام دیکر اسکو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کیا جائیگا۔غازہ کے راستے اسرائیل اورمصر کی سرحدیں نقل و حمل و تجارت کیلئے کھول دی جائینگی۔ اسرائیلی بندر گاہیں حیفہ اور اشدود کو فلسطینوں کے لئے کھولا جائیگا۔ بحیرہ میت یعنی ڈیڈ سی جو مغربی کنارہ کے علاقے میں شامل ہے، کے وسائل پر اسرائیل اور اردن کا کنٹرول رہیگا۔ اسرائیل دنیا بھر میں ڈیڈ سی پروڈکٹس برآمد کرتا ہے۔ بحیرہ مردارمیں کان کنی اور اسکی مصنوعات کو جلد کی حفاظت وغیرہ کی دواوئیوں کے بطور استعمال کرنے کی دریافت کا سہرا ایک پاکستانی نژاد یہودی کے سر ہے، جو کراچی سے اسرائیل منتقل ہو گیا تھا۔ اس پوری روداد کے بعد بھی بتایا گیا ہے کہ یہ پلان تبھی عمل میں لایا جائیگا ، جب حالات اسرائیل کے موافق ہونگے اور فلسطینی اگلے چار سالو ں تک تمام شرائط پر عمل درآمد کرکے اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنائیں گے۔ اس کے بعد اسرائیل دیگر امور پر قدم اٹھائے گا۔ فلسطینی حکام کیلئے لازم قرار دیا گیا ہے کہ ا ن کو حماس اور دیگر تمام مزاحمتی گروپوں کو غیر مسلح کرنا ہوگا۔ اردن اور مغربی کنارہ کی سرحدکے تین چیک پوسٹ فلسطینی حکام کے حوالے کئے جائینگے۔ اس پورے معاہدہ میں ترکی کے رول کا کوئی ذکر نہیں ہے ، جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں القدس یا یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت قرار دیئے جانے کے فیصلہ کے خلاف ووٹ دلوانے میں قائدانہ کردارکرکے امریکہ کے فیصلے کی سینہ تان کرمخالفت کی تھی۔چند برس قبل دوحہ میں راقم کو مقتدر فلسطینی لیڈر خالد مشعل سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ تو دو ریاستی فارمولے کو رد کرتے ہیں اور اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں، تو مفاہمت کیسے ہو؟ انہوں نے کہا: ''حماس کا رویہ کسی بھی طرح امن مساعی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یاسر عرفات اور محمود عباس نے تو اسرائیل کو تسلیم کیا، مگر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے زیادہ حلیف بنانا تحریک کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے‘‘۔ مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ حماس 2006ء کے نیشنل فلسطین اکارڈ پر کار بند ہے، جس کی رو سے وہ دیگر گروپوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔‘‘ اس فارمولہ میں فلسطینی علاقوں میں غربت و افلاس سے نپٹنے کیلئے 50بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا بھی ذکر ہے۔ اس سرمایہ کاری کے بدلے اگر فلسطینی اتھارٹی کو گیس کے ذخائر اور بحیرہ مردار کے وسائل کا کنٹرول دیا جاتا تو اس صدقہ سے کئی گنا بہتر ہوتا ۔خیر صدر ٹرمپ کی اس خود ساختہ ڈیل آف سینچری نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ کمزور اور طاقت ور کے درمیان کوئی ایگریمنٹ ہو ہی نہیں سکتا۔فلسطینی لیڈرو ں ،عرب و دیگر اسلامی ممالک کیلئے لازم ہے کہ اتحاد کا راستہ اختیار کرکے سیاسی لحاظ سے طاقت ور اور مستحکم بننے پر زور دکر تاریخ میں اپنے آپ کو سرخ رو کروائیں، ورنہ تاریخ کے بے رحم اوراق ان کو کبھی نہیں بخشیں گے۔ (ختم شد)