وزیر اعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین سال کے لیے آرمی چیف مقرر کیا ہے۔ وزیر اعظم ہائوس کی جانب سے جاری فرمان کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ کے تقررکا فیصلہ خطے میں سکیورٹی کی موجودہ صورت حال کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا۔ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ پر جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف تقرری نے دو چیزوں کو واضح کیا، جنرل قمر جاوید باجوہ جمہوریت پسند جرنیل ہیں اور پاکستان میں جمہوری اداروں کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے بارے میں بھارت کے سینئر جرنیلوں کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ پاک بھارت جنگی ودفاعی امور پر شاندر مہارت اور علم رکھتے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے اسباب میں ان کا خطے کی اہم پالیسیوں میں عمل دخل بھی ہو سکتا ہے۔ امریکہ کی نظر میں افغانستان کا معاملہ سب سے اہم ہے۔ اس تنازع نے امریکہ کی بطور سپر طاقت حیثیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جنرل باجوہ کی سرکردگی میں پاکستان کی عسکری و سفارتی ٹیم نے افغان تنازع کے پرامن حل کے لیے منصوبہ بندی کا آغاز کیا۔ انہوں نے ایک طرف پاکستان کی سرحدوں کو افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں سے محفوظ بنانے کے لیے جنرل راحیل شریف کے اقدامات کو جاری رکھا تو دوسری طرف خارجہ امور میں غیر فعال ہو چکی حکومت کو بار بار نقصانات سے آگاہ کیا۔طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر راضی کرناان کا اہم کارنامہ ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کا پرامن انخلا سارے خطے کے لیے خوشگوار تبدیلی کا ذریعہ بن سکتا ہے جب تک یہ کام مکمل نہیں ہو جاتا جنرل باجوہ کی موجودگی ضروری سمجھی جا رہی تھی۔ خصوصاً اس دوران پاک امریکہ نئے رابطوں میں پاکستان کے سکیورٹی مفادات کے تحفظ کے لیے ان کا ایک اور مدت کے لیے آرمی چیف رہنا ایک ضرورت تھا۔ مغربی ممالک نے پہلی بار ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ہونے کے بعد طے کیا کہ اب دنیا کو جنگوں سے بچانا ہو گا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ تنازعات کو بات چیت سے حل کرنے کا طریقہ کار تلاش کیا جائے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت نے جنگی صلاحیت میں ممتاز مغربی ممالک کو مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کا راستہ دکھایا۔ دنیا کے پسماندہ اور دوسرے خطوں کے ممالک ابھی تک خطرناک ہتھیاروں کو صرف طاقت کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرکے جس طرح بازی پلٹی ویسا ہی کام وہ بھی کر سکتے ہیں۔ بات جب پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعات کی ہوتی ہے تو یہ مغربی ممالک کی سفارتی صلاحیت کو پیش نظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ امریکہ، روس، فرانس اور برطانیہ یہ امر فراموش کر دیتے ہیں کہ یہ دونوں ملک ایسے نظریہ کی بنیاد پر الگ الگ آزاد ہوئے جو صدیوں کی سچائی کا نتیجہ ہیں۔ بھارت خطے کا بڑا ملک ہے اس کی آبادی جنوبی ایشیا کے دیگر تمام ممالک کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔ اسی طرح اس کا رقبہ، معیشت اور دفاعی صلاحیت پاکستان سمیت تمام ممالک سے بڑی ہے۔ یہ بڑی آبادی بلاشبہ عالمی برادری کے لئے ایک بڑی مارکیٹ ہے جہاں کھربوں ڈالر کی مصنوعات کھپ سکتی ہیں مگر خطے کے تنازعات خصوصاً پاک بھارت تنازعات کا حل ہونا اس بڑی مارکیٹ کو دنیا کے لئے فائدہ بخش ثابت نہیں ہونے دیتا۔ کشمیر کے متعلق بھارت کے عزائم اور خطے کی صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی پالیسی اور اس پالیسی کو تقویت دینے والی ٹیم کا کردار برقرار رہے۔ بھارت نے کئی بار عالمی سطح پر پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا پروپیگنڈا کیا۔ دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن نے یہ خدشہ غلط ثابت کر دیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروٹوکول اب تک بھارت کے مقابلے میں زیادہ محفوظ رہا ہے۔ ایٹمی توانائی ایجنسی اس بات کو تسلیم کرتی ہے۔ پاکستان نے انتہائی کشیدہ سرحدی صورتحال میں بھی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی بات نہیں کی۔ بھارت کی طرف سے اقوم متحدہ کے چارٹر کی موجودگی، سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عالمی برادری کی تائید اور متعدد دوطرفہ بات چیت کے معاہدوں کو مسترد کرکے اگر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی بات کی جاتی ہے تو اسے سنجیدگی اور تشویش سے سامنے دیکھنے کی ضرورت ہے جس طرح عراق کے معاملے پر عالمی طاقتوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ایٹمی ہتھیاروں جیسے حساس ہتھیاروں پر جنونی نظریات کے مالک مودی اور ان کے ساتھیوں کا کنٹرول دنیا کو کسی بھی لمحے بڑے المیئے سے دوچار کر سکتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیاسی قیادت کو اپنے قومی ایجنڈے پر عملدرآمد کے لیے بھرپور تعاون فراہم کیا ہے۔حکومت کے لیے بلا امتیاز احتساب پہلی ترجیح ہے۔ اسی طرح معاشی بگاڑ کی وجوہات دور کر کے ملک کو قرضوں کی بجائے صنعتی و زرعی پیداوار،سیاحت، خدمات اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کے ذریعے خوشحالی و خود انحصاری کی طرف لے جانے کے لیے وزیر اعظم اور آرمی چیف کی سوچ میں مثالی ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے۔ریاست نے اگر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جنرل باجوہ کی خدمات پر ایک بار پھر اعتماد کیا ہے تو وزیر اعظم سے توقعات بھی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ قوم، پارلیمنٹ، عدلیہ، خارجہ امور اور معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے اپنا کردار زیادہ دلجمعی سے ادا کریں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس امر کو بار بار قوم کے شعور کا حصہ بنانے کی سعی کی ہے کہ افراد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اداروں کے استحکام کی بات کی۔ پاکستان کو مخصوص خاندانوں نے جس طرح چلایا اور اداروں کو کمزور کیا اس سے خود آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی متاثر ہوئی۔ امید کی جاتی ہے کہ جنرل باجوہ جمہوری استحکام کے لیے اپنا یہ کردار جاری رکھیں گے۔