ضمیر جعفری عین ہماری نبض پر انگلی رکھتے تھے۔ ایسا مزاح جس میں آنسو چھپے تھے۔ آبادی بم کے بارے میں متنبہ کیا کہ ؎ شوق سے نور نظر، لخت جگر پیدا کرو ظالمو تھوڑ سی گندم بھی مگر پیدا کرو مغرب نے جن صفات کو بروئے کار لا کر ترقی کی، وہ ہمیں نہیں راس آتیں۔ ضمیر جعفری نے کہا بھگو کر لگائی ہے ؎ نہ بینائی پسند آئی نہ دانائی پسند آئی مجھے سب جرمنی میں ایک نکٹائی پسند آئی عورت میں صرف خوبصورتی کا پہلو تلاش کیا جائے تو جو صورت حال بنتی ہے اس پر کہتے ہیں ؎ اپنی روٹی خود پکا مسٹر کہ اب بیوی کے ساتھ حسن آ جاتا ہے، حسن انتظام آتا نہیں ہر روز بزرگوں کی خدمت میں حاضری دینے کے بجائے ٹیلی فون پر ہی نصف ملاقات ہو جاتی ہے ؎ فون پر باتیں ملاقاتوں میں حائل ہو گئیں اب سلام آتا ہے، خود عبدالسلام آتا نہیں جن دنوں یہ کالم نگار کالج میں لیکچرر تھا، ان دنوں کا قصہ ہے! ایک طالب علم کا والد نائب قاصد تھا۔ (ان دنوں چپڑاسی کی اصطلاح مروج تھی۔) مقابلے کے امتحان میں افسر لگ گیا۔ ٹریننگ اکیڈمی میں والد کو نہ آنے دیا۔ گھر والوں کو یہ بتا رکھا تھا کہ کسی ملاقاتی کو اندر آنے کی اجازت نہیں۔ ضمیر جعفری اس پر نوحہ خوانی کرتے ہیں ؎ وہ بی اے ہے۔ مگر بی اے کی خو آتی نہیں اس کو ابھی ماں باپ کے کپڑوں سے بو آتی نہیں اس کو آج ضمیر جعفری کیوں یاد آ رہے ہیں؟ خواتین کا جو عالمی دن منایا گیا ہے۔ وہ بھی عجب تماشا ہے۔ فادرز ڈے، مدر زڈے اور اب خواتین کا دن! ایک اقبال ڈے بھی منایا جاتا ہے۔ اقبال کی تعلیمات تو دور کی بات ہے، اقبال کی تصانیف کے نام سے بھی نئی نسل کی بھاری اکثریت نابلد ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اقبال ڈے کے بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے ؎ بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر جو جو پلے کارڈ لہرائے گئے ان پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ان میں سے اکثر پلے کارڈز پر جو کچھ درج تھا وہ گھر میں ماں بیٹی یا بہن کے سامنے نہیںدہرایا جا سکتا۔ اس طرز عمل کے علم برداروں سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ جو بیوائیں اپنی زندگی کی مشعل کو دونوں طرف سے جلا کر دن پورے کر رہی ہیں اور بچوں کو پال رہی ہیں کبھی ان کی خبر لی؟ کتنوں کی جہیز تیار کرنے میں مدد کی؟ کتنوں کے مقدمے لڑے؟ کتنی بے سہارا لڑکیوں کو تعلیم دلائی؟ پوپلے منہ والی کتنی بڑھیائوں کے منہ میں نوالے ڈالے؟ کتنی خمیدہ کمر ضعیفوں کی پیٹھ کے پیچھے بیٹھ کر تکیہ بنے؟ کتنوں کے گھروں کے باہر، رات کے اندھیرے میں آٹے کا بیگ، چینی کی تھیلی یا گھی کا ڈبہ رکھ کر فوراً واپس چلے گئے تاکہ بیوہ کا یتیم بچہ ہر روز احسان کے بوجھ تلے دبا سلام نہ کرتا پھرے؟ کبھی ٹیکسلا کے کھنڈرات جائیں تو وہاں نوٹ کیجیے کہ سیاحوں کو بریف کرنے کے لیے مرد گائیڈوں میں ایک عورت بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس کا میاں جو یہاں گائیڈ تھا، مر گیا۔ خواتین کا عالمی دن منانے والوں نے اسے کیا پوچھنا تھا، چھ بچے تھے۔ دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے۔ باہمت خاتون نے جو ان پڑھ تھی، کمر ہمت باندھ لی۔ اس نے انگریزی کے فقروں کے فقرے یاد کرلیے اور اب اچھی خاصی انگریزی میں سیاحوں کی رہنمائی کرتی ہے۔ یہ کالم نگار ایک ایسی عمر رسیدہ عورت کو جانتا ہے جو ایک پرائیویٹ سکول سسٹم میں نائب قاصدہ کی ملازمت کر رہی ہے۔ میاں جہاد پر گیا۔ سالہا سال گزر گئے۔ واپس نہ آیا۔ شہید ہو گیا ہوگا یا قید۔ جنہوں نے جہاں پر بھیجا تھا، انہوں نے خبر گیری کی نہ پرواہ۔ خواتین کے عالمی دن پر جلوس نکالنے والوں، پلے کارڈز اٹھانے والوں اور اٹھانے والیوں کو کیا خبر کہ یہ مفلوک الحال، قلاش، بے آسرا، بڑھیا کس طرح اپنی بیٹیوں کو پڑھا رہی ہے؟ کن مراحل سے گزر رہی ہے؟ فیسیں، کتابوں کے اخراجات، جملہ ضروریات، کس طرح پوری کر رہی ہے؟ ستارے کاٹتی ہوں راستہ بناتی ہوں مجھے ہی علم ہے جس طرح صبح کرتی ہوں ایک بیٹی ڈاکٹر بن رہی ہے۔ دو یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ یہ جلوس، یہ پلے کارڈز، یہ نکاح کے خلاف تقریریں، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ عورتوں کی فلاح کے لیے ہے تو وہ خود احمق ہے یا دوسروں کو پرلے درجے کا گائودی گردانتا ہے۔ یہ مفادات کا سلسلہ ہے، ڈوریاں کہیں اور سے ہل رہی ہیں۔ یہ کٹھ پتلیاں ہیں جو نچائی جا رہی ہیں۔ یہ کٹھ پتلیاں کبھی نہیں مطالبہ کریں گی کہ عورتوں کو وراثت میں حق دو جو اسلام نے ان کے لیے مقرر کیا ہے۔ یہ کٹھ پتلیاں کبھی نہیں احتجاج کریں گی کہ بیٹی کی ولادت پر بیوی کو مارنے، طلاق دینے اور گھر سے نکالنے والے کو سزا دی جائے۔ اس لیے کہ یہی تو وہ فلاح ہے جو عورت کو پاکستان میں مطلوب ہے۔ اسی پاکستان میں لاکھوں کروڑوں عورتیں پو پھٹے اٹھتی ہیں۔ مویشیوں کو چارہ ڈالتی ہیں۔ پورے گھر کی صفائی کرتی ہیں۔ دہی بلوتی ہیں، پھر کھیتوں میں کام کرتی ہیں، گندم کاٹتی ہیں، مونگ پھلی نکالتی ہیں۔ کسان شوہروں کے شانہ بشانہ شام ڈھلے تک مشقت کرتی ہیں۔ گھر پلٹ کر کھانا پکاتی ہیں۔ سسر اور ساس کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ زندگی کے میدان میں وہ اس قدر مصروف عمل ہیں کہ انہیں ان چونچلوں کی، ان بے ہودگیوں کی،ان جلوسوں کی، ان پلے کارڈز کی اور نکاح کے خلاف ان بیانات کی ضرورت ہے نہ ان کے پاس اتنا وقت ہے۔ نسوانیت کے لیے باعث فخر وہ عورتیں ہیں جو دوسروں کے گھروں میں نوکرانیاں بن کر اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہیں۔ کھانا پکاتی ہیں، برتن مانجھتی ہیں، کپڑے دھوتی ہیں، فرش صاف کرتی ہیں، ان میں سے اکثر کے میان نکھٹو ہیں، عادی نشہ باز یا وار داتیے۔ اس ملک کی ننانوے فیصد عورتوں کاان جلوسوں سے کوئی تعلق نہیں، یہ کالم نگار ایک گائوں سے تعلق کھتا ہے، ہم گائوں کے لوگوں سے زیادہ عورتوں کے حقوق کا کس کو پتہ ہے؟ کوئی مدعی ہے توسامنے آئے۔ یہ ایک فیصد سے بھی کم۔ بہت کم‘ عورتیں جن کے میک اپ کا خرچ، جن کے ہیئر ڈریسنگ کے اخراجات، جن کے ملبوسات کی اکنامکس، ننانوے فیصد کے مجموعی خرچ سے بھی شاید کچھ زیادہ ہو، انہیں کیا علم کہ زندگی کیا ہے؟ عورت پر کیا گزر رہی ہے؟ یہ فیشن زدہ کلاس وہی ہے جس کی عورتیں خود دوسری بیویاں بنتی ہیں۔ یہی تو ہیں جو بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دینے کا وقت آئے تو اپنا تھوکا چاٹ لیتی ہیں۔ یہی وہ عورتیں ہیں جو خادمائوں پر ستم ڈھاتی ہیں اور کم سن بچیوں کو پیٹ بھر کھانا تک نہیں دیتیں۔ تیندوے جلوس نکال رہے تھے اور نعرہ کیا تھا؟ ہرن کی حفاظت!