رب العالمین کی قدرت کی نشانیوں کی پرکھ صاحبان ایمان ہی کرسکتے ہیں ۔جولوگ ایمان کے نورسے بہرہ مندنہ ہوں توان کی بے بصیرت آنکھیں قدرت کی واضح نشانیوں کاکیا خاک مشاہدہ کرسکتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بے شمار ایسے بھی لوگ ہیں جوحقائق کے سامنے آنے کے بعد بھی عبرت اورنصیحت تسلیم نہیں کرپاتے ۔بات کرنے کامقصدیہ ہے کہ خانہ کعبہ میں پرندوںکے طواف کا روح پرورمنظراوررب کی اس نشانی کودیکھ کربطورایک صاحب ایمان سوچ یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ رب نے اشارہ فرمایاکہ تم کروناکے خوف سے کعبہ کاطواف کرناچھوڑدوگے توایک اورمخلوق میرے گھرکاطواف کرناشروع کردے گی اورعین اسی طرح پرندوں سے کام لیاجائے گاکہ جب ابرہہ کے حملہ آورہونے کے وقت لوگوں نے اس طرف التفات نہ کی توابابیل نے ہاتھی والوں کے لشکرسے نمٹ لیا۔ابرہہ کے ناپاک ارادوں کے حوالے سے اس مضمون کی پہلی قسط میں ابتدائی بات ہوئی اسی کاتسلسل جاری ہے کہ ابرہہ اس پر راضی ہوکر ابورغال کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ کے قریب ایک مقام مغمس پر پہنچ گیا جہاں قریش مکہ کے اونٹ چر رہے تھے، ابرہہ کے لشکر نے سب سے پہلے ان پر حملہ کرکے اونٹ گرفتار کرلیے جن میں دو سو اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد حضرت عبدالمطلب رئیس قریش کے بھی تھے۔ ابرہہ نے یہاں پہنچ کر اپنے ایک سفیر حناطہ حمیری کو شہر مکہ میں بھیجا کہ وہ قریش کے سرداروں کے پاس جا کرا طلاع کر دے کہ ہم تم سے جنگ کے لیے نہیں آئے، ہمارا مقصد کعبہ کو ڈھانا ہے۔ اگر تم نے اس میں رکاوٹ نہ ڈالی تو تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ حناطہ جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوا تو سب نے اس کو عبدالمطلب کا پتہ دیا کہ وہ سب سے بڑے سردار قریش کے ہیں۔ حناطہ نے عبدالمطلب سے گفتگو کی اور ابرہہ کا پیغام پہنچا دیا۔ ابن اسحق کی روایت کے مطابق حضرت عبدالمطلب نے یہ جواب دیا کہ ہم بھی ابرہہ سے جنگ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، نہ ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ اس کا مقابلہ کرسکیں۔ البتہ میں یہ بتائے دیتا ہوں کہ یہ اللہ کا گھر اور اس کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کا بنایا ہوا ہے، وہ خود اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے، اللہ سے جنگ کا ارادہ تو جو چاہے کرے پھر دیکھے کہ اللہ تعالی کیا معاملہ کرتے ہیں۔ حناطہ نے حضرت عبدالمطلب سے کہا کہ تو پھر آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو ابرہہ سے ملاتا ہوں۔ ابرہہ نے جب عبدالمطلب کو دیکھا کہ بڑے وجیہہ آدمی ہیں تو ان کو دیکھ کر اپنے تخت سے نیچے اترکر بیٹھ گیا اور عبدالمطلب کو اپنے برابر بٹھایا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ حضرت عبدالمطلب سے پوچھے کہ وہ کس غرض سے آئے ہیں، عبدالمطلب نے کہا کہ میری ضرورت تو اتنی ہے کہ میرے اونٹ جو آپ کے لشکر نے گرفتار کر لیے ہیں ان کو چھوڑ دیں۔ ابرہہ نے ترجمان کے ذریعہ حضرت عبدالمطلب سے کہا کہ جب میں نے آپ کو اول دیکھا تو میرے دل میں آپ کی بڑی وقعت و عزت ہوئی، مگر آپ کی گفتگو نے اس کو بالکل ختم کردیا کہ آپ مجھ سے صرف اپنے دو سو اونٹوں کی بات کر رہے ہیں۔ اور یہ معلوم ہے کہ میں آپ کا کعبہ جو آپ کا دین ہے اس کو ڈھانے کے لیے آیا ہوں اس کے متعلق آپ نے کوئی گفتگو نہیں کی۔ حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کہ اونٹوں کا مالک تو میں ہوں مجھے ان کی فکر ہوئی، اور بیت اللہ کا میں مالک نہیں بلکہ اس کا مالک ایک عظیم ہستی ہے وہ اپنے گھر کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔ ابرہہ نے کہا کہ تمھارا خدا اس کو میرے ہاتھ سے نہ بچاسکے گا۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ پھر تمھیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت عبدالمطلب کے ساتھ اور بھی قریش کے چند سردار گئے تھے اور انہوں نے ابرہہ کے سامنے یہ پیش کش کی کہ اگر آپ بیت اللہ پر دست اندازی نہ کریں اور لوٹ جائیں تو ہم پورے تہامہ کی ایک تہائی پیداوار آپ کو بطور خراج ادا کرتے رہیں گے مگر ابرہہ نے اس کے ماننے سے انکار کردیا۔ حضرت عبدالمطلب کے اونٹ ابرہہ نے واپس کردیئے۔ وہ اپنے اونٹ لے کر واپس آئے تو بیت اللہ کے دروازے کا حلقہ پکڑ کر دعا میں مشغول ہوئے۔ قریش کی ایک بڑی جماعت ساتھ تھی سب نے اللہ تعالی سے دعائیں کیں کہ ابرہہ کے عظیم لشکر کا مقابلہ ہمارے تو بس میں نہیں، آپ ہی اپنے بیت کی حفاظت کا انتظام فرمادیں، الحاح و زاری کے ساتھ دعا کرنے کے بعد حضرت عبدالمطلب مکہ مکرمہ کے دوسرے لوگوں کو ساتھ لے کر مختلف پہاڑوں پر پھیل گئے۔ ان کو یہ یقین تھا کہ اس لشکر پر اللہ کا عذاب آئے گا، اسی یقین کی بنا پر انھوں نے ابرہہ سے خود اپنے اونٹوں کا مطالبہ کیا، بیت اللہ کے متعلق گفتگو کرنا اس لیے پسند نہ کیا کہ خود تو اس کے مقابلے کی طاقت نہ تھی اور دوسری طرف یہ بھی یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالی ان کی بے بسی پر رحم فرما کر دشمن کی قوت اور اس کے عزائم کو خاک میں ملا دیں گے۔ صبح ہوئی تو ابرہہ نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تیاری کی اور اپنے ہاتھی محمود نامی کو آگے چلنے کے لیے تیار کیا۔ نفیل بن حبیب جن کو راستہ سے ابرہہ نے گرفتار کیا اس وقت وہ آگے بڑھے اور ہاتھی کا کان پکڑ کر کہنے لگے تو جہاں سے آیا ہے وہیں صحیح سالم لوٹ جا، کیونکہ اللہ کے بلد امین‘ محفوظ شہر‘میں ہے یہ کہہ کر اس کا کان چھوڑ دیا، ہاتھی یہ سنتے ہی بیٹھ گیا، ہاتھی بانوں نے اس کو اٹھانا چلانا چاہا لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا، اس کو بڑے بڑے آہنی تبروں سے مارا گیا، اس کی بھی پرواہ نہ کی، اس کی ناک میں آنکڑا لوہے کا ڈالدیا پھر بھی وہ کھڑا نہ ہوا، اس وقت ان لوگوں نے اس کو یمن کی طرف لوٹانا چاہا تو فورا کھڑا ہوگیا، پھر شام کی طرف چلانا چاہا تو چلنے لگا، پھر مشرق کی طرف چلایا تو چلنے لگا، ان سب اطراف میں چلانے کے بعد پھر اس کو مکہ مکرمہ کی طرف چلانے لگے تو بیٹھ گیا۔ رب العالمین جل شانہ، کا یہ کرشمہ تو یہاں ظاہر ہوا۔ دوسری طرف دریا کی طرف سے کچھ پرندوں کی قطاریں آتی دکھائی دیں جن میں سے ہر ایک کے ساتھ تین کنکریاں چنے یا مسور کے برابر تھیں، ایک چونچ میں اور دوپنجوں میں۔ واقدی کی روایت میں ہے کہ پرندے عجیب طرح کے تھے جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے، جثہ میں کبوتر سے چھوٹے تھے ان کے پنجے سرخ تھے، ہر پنجے میں ایک کنکر اور ایک چونچ میں لے آتے دکھائی دیتے اور فورا ہی ابرہہ کے لشکر کے اوپر چھا گئے، یہ کنکریں جو ہرایک کے ساتھ تھیں ان کو ابرہہ کے لشکر پر گرایا۔ ایک ایک کنکر نے وہ کام کیا جو بندوق کی گولی بھی نہیں کرسکتی، کہ جس پر پڑتی اس کے بدن کو چھیدتی ہوئی زمین میں گھس جاتی تھی۔