کتنی دیر تک اس سرخی سے نظر نہیں ہٹی کہ دہشت گردوں نے دس نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ ایک زخمی اور خوں چشیدہ سا احساس اندر تک اتر گیا۔ آخر یہ سب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب بھی سامنے ہے کہ امن کے دشمنوں کو امن راس نہیں۔ فوج نے ان کے راستے مسدود کیے ہیں تو وہ فرسٹریشن اور غصے میں معصوم جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ عارف کی تو کچھ دن بعد شادی تھی۔ مگر وہ کہیں اور آسودہ ہے کہ جہاں موت نہیں زندگی اور رزق اترتا ہے جس کا ہم ادراک نہیں رکھتے۔ یہ کہنا اس کا ہے جو خالق و مالک ہیں۔ عارف کے باپ نے کہا ہے کہ اسے اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے‘ یقینا پوری قوم کو اپنے دس کے دس نوجوان شہدا پر فخر ہے کہ ویسے بھی ’’شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے‘‘ اقبال نے کہا تھا: شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی اس شعر کے دوسرے مصرعے نے سچ مچ مجھے پکڑ لیا کہ واقعتاً دوسری جانب یہی کچھ ہے کہ کشور کشائی اور مال غنیمت‘ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اقتدار کے لئے ساری اقدار و روایات پامال کر دی جاتی ہیں۔ سرحد پار کر لی جاتی ہے ملکی وسائل اور دولت کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹا جاتا ہے۔ فوج کے جوان ملک کو بیرونی خطرات سے جان کی بازی لگا کر بچاتے ہیں اور دوسری طرف یہ اقتدار کے بھوکے سیاستدان اس ملک کو اندرونی خطرات سے دوچار کئے رکھتے ہیں وہ اسے گھن کی طرح کھا رہے اور دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ ایک ہی صفحہ پر 10فوجیوں کی شہادت کی خبر اور اسی صفحہ پر خبر ہے کہ حنیف عباسی امریکہ بھاگ گئے اور حالات کے اچھا ہونے تک وطن واپس نہیں آئیں گے۔ انسان سوچتا ہے کہ ایسے حالات کرنے والے چور اور ڈاکو جب مواخذہ کا وقت آتا ہے تو اڑان ہو جاتے ہیں۔ ان کو نہ تنبیہہ کا اثر ہوتا ہے اور نہ یہ کسی سے عبرت پکڑتے ہیں۔ ہم تو انہیں کہتے رہے: فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے حنیف عباسی پر کیسز پی ٹی آئی نے ہرگز نہیں بنائے۔ وہ ایف این ڈرین کیس میں پہلے سے موجود ہیں اور وہ کسی کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی بدن بولی میں بڑی رعونت تھی۔ ان کے ساتھ یوسف رضا گیلانی کا بیٹا بھی تھا۔ گیلانی صاحب کا ذکر آیا تو کیا کیا کچھ ذہن میں نہیں آیا ۔ آپ کو یاد ہو گا کہ لوگ انہیں ایم بی بی ایس یعنی میاں بیوی بچوں سمیت کہا کرتے تھے۔ گیلانی صاحب کو عدالت نے سزا سنائی تو ان سے بھی دو ہاتھ آگے راجہ پرویز اشرف عرف رینٹل پاور آ گئے کہ پیپلز پارٹی کے پاس کیسے کیسے ’’نگینے‘‘ تھے۔ انہوں نے آخری چھٹی والے دن بھی خوب لوٹ مار کی تھی اور تو اور فہمیدہ مرزا جیسی سنجیدہ خاتون نے بھی 55کروڑ کا قرضہ معاف کروایا۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔ پیپلز پارٹی کے ایک صاحب نے تو اپنی حکومت سے کرپشن کرنے کی اجازت مانگی تھی کہ یہ صرف لیڈر شپ کا حق نہیں۔ پرویز مشرف کے ساتھ کیا گیا این آر او کس کو بھولے گا کہ جسے قانونی شکل دلوانے کی کوشش کی گئی۔ میرا خیال ہے کہ قلم کو یہاں روک لینا چاہیے: آئے بکنے پہ تو حیرت میں ہمیں ڈال دیا وہ جو بے مول تھے نیلام سے پہلے پہلے یہ تو میں نے میثاق جمہوریت کے ایک پارٹنر کی بات کی ہے۔ دوسرا حصہ دار تو کچھ اور آگے چلا گیا کہ اس نے تو ملکی سلامتی کی بھی پروا نہیں کی۔ پہلے المیڈ والا انٹرویو اور اس کے بعد چل سو چل۔ ڈان نیوز پر ایک دو کو قربانی پر چڑھایا اور جب پانامہ لیکس کا معاملہ سنجیدہ ہوتا گیا اور کسی نے داد رسی نہ کی تو میاں صاحب سیدھے ہو گئے اور بیانیہ جاری کر دیا اور کہا کہ مجھے کیوں نکالا۔ جی ٹی روڈ کا سارا شور شرابا تھما تو انہیں ہوش پھر بھی نہ آیا۔ مریم نواز نے اس بیانئے کو اور آگے بڑھایا مگر وہ بھی مقتدر قوتوں کو بلیک میل کرنے میں کامیاب نہ ہوئیں۔ لوگ واقعتاً ان کے لئے دیوانہ وار نکلتے۔ اگر ان کی جڑیں اپنی زمین میں ہوتیں یہاں تو صرف ان کا کاروبار تھا جس کا مرکز باہر برطانیہ میں ہے ان کی عیدیں اور شبراتیں بھی باہر ہوتی ہیں۔ ڈار صاحب پہلے ہی بھاگ نکلے کہ زیادہ سیانے تھے۔ جب احتساب ہوتا ہے تو جمہوریت خطرے میں نظر آتی ہے کیونکہ جمہوریت میں احتساب نہیں ہوتا۔ وقت وقت کی بات ہے اور وقت ایک سا نہیں رہتا۔ مگر ندامت کسی کو نہیں بلکہ یوں کہیں کہ : آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ خدا جانے ان کی نیت بھرتی ہی نہیں۔ حرص اور لالچ باقاعدہ ایک بیماری کی صورت اختیار کر چکی ہے سارے وسائل اپنے اور اپنے عزیز و اقربا کے لئے استعمال کر کے اپنے ووٹر بنانے کے لئے بھی خزانہ لٹانے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے دھیلے کی کرپشن کی ہو تو انہیں پھانسی پر لگا دیا جائے۔ پھانسی پر تو ہمیشہ عوام چڑھتے ہیں اور کسی جرم کے بغیر۔ چھوڑا نہ صیدتونے کسی کو زمانے میں تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں یہ نہیں ہے کہ یہ اکیلے کرپشن اور بدعنوانیاں کرتے رہے اور انہوں نے حکمرانی کو بھی کاروبار بنا دیا۔ انہوں نے کاروباریوں کو بھی سیاستدان بنا دیا اور وہ ٹیکس دینے کے لئے بھی تیار نہیں۔ میں تو اس وقت مکہ میں ہوں کہ حج کرنے آیا ہوں سیاست پر لکھنے کو دل نہیں چاہتا بس 10جوانوں کی شہادت نے ہلا کر رکھ دیا پاکستان کے یہ سپوت وطن پر قربان ہوئے۔ اسی وطن کو ہمارے سیاست دان آلودہ کر رہے ہیں‘ شہیدوں کو سلام اور ایک شعر: ہیں ابھی شہر میں ناموس پہ مرنے والے جینے والوں کے لئے ایک سہارا ہی سہی