ایک طرف ہم ۲۵ دسمبر کو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پہ خلقِ خدا کو جھوم جھوم کے، قومی پرچم کو چوم چوم کے قائدِ محترم کی بصیرت، ذہانت ، دیانت، استقامت، عظمت اور کام، کام، کام والی بے مثال حکمتِ عملی کے گُن گاتے دیکھ دیکھ کے شاد ہو رہے تھے۔ لیکن اگلے ہی دن یعنی ۲۶ دسمبر کو منیر نیازی کی برسی کے حوالے سے جب یہ شعر نظر نواز ہوا: ؎ منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ تو ہم سوچ میں پڑ گئے کہ اتنا عظیم لیڈر رکھنے اور اس کے تمام فرمودات پوری قوم کو از بر ہونے کے باوجود بہتّر سالوں سے ہم منیر نیازی کے شعر کی تصویر کیوں بنے ہوئے ہیں؟اسی بات پہ پیچ و تاب کھاتے کھاتے آنکھ لگ گئی تو خواب میں حضرت قائد سے آمنا سامنا ہو گیا ۔ پھر خواب ہی خواب میں ان سے جو مکالمہ ہوا وہ آپ بھی ملاحظہ کیجیے: ’’ السّلام علیکم! مسٹر جناح‘‘ ’’ کیسے ہو ینگ مین!‘‘ ’’مَیں ٹھیک ہوں جناب ، لیکن وطنِ عزیز میںآپ کے کام، کام، کام،والے فلسفے کی تذلیل سے پریشاں ہوں۔‘‘ ’’مَیں بھی دیکھ رہا ہوں کہ میرے بعد آنے والے حکمرانوں نے جس طرح ہر قانون اور ضابطے میںاپنی مرضی اور مطلب کی ترمیم کر لی ، اس طرح انھوں نے اس قول کو بھی بدل ڈالا۔ اب وہ پہلے تو نام، نام، نام، بنانے پہ زور دیتے ہیں۔ پھر دام، دام، دام، پہ آنکھیں بند کر کے ایمان لے آتے ہیں، جب یہ دونوں چیزیں حاصل ہو جاتی ہیں تو جام، جام، جام کے علاوہ انھیں کچھ نہیں سوجھتا۔ سچ پوچھو تو تمھارے تمام سیاست دان ابھی خام، خام اور صرف خام ہیں۔‘‘ ’’آپ کو ہمارے ملک کے کسی شعبے میں تو ترقی نظر آئی ہوگی؟ ‘‘ ’’ہاں ہاں کیوں نہیں! تم لوگوں نے خیر سے رشوت، سفارش، بدعنوانی، بے انصافی، جہالت، اقربا پروری ، الزام تراشی میں بہت ترقی کی ہے اور پھر تمھارے سیاسی لیڈروں کی جاگیروں، فیکٹریوں، اکاؤنٹوں، بد مستیوں اور بد عہدیوں نیز ججوں، جرنیلوں اور صحافیوں کی ہوس کا گراف بھی ہمارے زمانے کی نسبت بہت اونچا ہے۔‘‘ ’’اپنی پارٹی مسلم لیگ سے متعلق کچھ کہیں گے؟‘‘ ’’بس اس میں سے سیاست کی آڑ میں کاروبار اور بدمعاشی کرنے والے سو ڈیڑھ سو نام نہاد ’لیڈر‘ نکال دیے جائیں تو اچھی خاصی جماعت بن سکتی ہے۔‘‘ ’’اپنی قومی زبان کی بابت کچھ ارشاد فرمائیں گے؟‘‘ ’’مسٹر! تم لوگوں کو اپنی دی ہوئی زبان کا کچھ پاس نہیں ہوتا، قومی زبان کا کیا خاک سوچو گے!! البتہ جن لوگوں کا رزق بھی اس زبان سے وابستہ ہے، بھلے وہ میڈیا ہو، اساتذہ ، وکیل، جج ہوں یا کاروباری طبقہ، جب وہ بھی اس زبان سے عملی وفاداری کا مظاہرہ نہیں کرتے تو مجھے اس بات پہ بہت دکھ ہوتا ہے۔‘‘ ’’مسٹر جناح! یہ بتائیے کہ کبھی عالمِ بالا میں مسٹر گاندھی سے بھی آمنا سامنا ہوا؟‘‘ ’’پچھلے دنوں نظر آیا تھا ، جنت کی دیوار کے پچھواڑے بکری چرا رہا تھا، حیرت کی بات یہ کہ قمیص بھی پہنے ہوئے تھا۔ مَیں نے اس حیران کُن تبدیلی کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگا : مَیں تو نہیں پہنتا تھا ، یہ تو مجھے مسلمانوں کے خلاف سیاسی چالیں چلنے کے جرم میں فرشتوں نے جبراً پہنا رکھی ہے۔‘‘ ’’پھر تو وہ اب اپنی دیگر حرکات پہ بھی پچھتا رہا ہوگا؟‘‘ ’’نہیں نہیں! وہ تو اب تک بہت مطمئن تھا۔ کہتا تھا کہ قمیص کے اس جبر کے باوجود مجھے اپنے ملک سے ترقی، خوشحالی اور خود انحصاری کا کوئی نہ کوئی ٹھنڈا جھونکا موصول ہوتا رہتا ہے۔ وہ تو الٹا مجھ پہ طنز کرنے لگا : اور بناؤ ان جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے لیے الگ ملک؟‘‘ ’’پھر آپ نے کیا جواب دیا؟‘‘ ’’مَیں نے عرض کی کہ مسٹر تمھارے ملک کے حالات بھی ہم سے زیادہ مختلف نہیں ہیں،لیکن اس کی اگلی بات نے تو میرے تن بدن میں آگ لگا دی۔‘‘ ’’وہ کیا بات تھی؟‘‘ ’’کہنے لگا: میرے ملک کے لیڈر جیسے بھی ہیں ، لڑاکے، بدمعاش، کڑوے، کسیلے ، کذاب… مگر ان میں سے کسی کے بیرونِ ملک اربوں ڈالر کے اکاؤنٹ ، جائیدادیں یا کاروبار تو نہیں ہیں… یا تمھارے ملک کی خفیہ ایجنسیوں سے بھاری تنخواہیں تو وصول نہیں کرتے ۔‘‘ ’’آپ کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو ذرا ہمارے سیاست دانوں سے متعلق کچھ کہنا چاہیں گے؟‘‘ ’’غصہ تو ٹھنڈا نہیں ہوگا، البتہ آپ پوچھیں کس کے متعلق پوچھنا ہے۔‘‘ ’’مرحوم بھٹو کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ ’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا… ایک بار ایوب خاں کے پہلو میں بیٹھا ہوا نظر پڑا تھا، سلام کے لیے آیا تو میں نے پوچھا کہ یہاں کن حالات میں ہو؟ نہایت پریشانی کے عالم میں کہنے لگا : اب اتنی تکلیف مجھے یہاں کے حالات سے نہیں جتنی زمین پہ میرا نام استعمال کرنے والوں کی طرٖف سے ہے۔‘‘ ’’جنرل ضیاء الحق کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘’’اس کے دور میں رائے رکھنے کی اجازت ہوتی تھی، جو مَیں رائے دوں!!‘‘ ’’اور اپنا جونیجو؟‘‘ ’’ ناحق ہم مجبوروں پہ یہ تہمت ہے مختاری کی جو چاہے سو آپ کرے ہے ہم کو عبث بدنام کیا‘‘ ’’یہ آج آپ شاعری پہ بہت زور دے رہے ہیں ، آپ تو اپنے زمانے کے ایک خشک قسم کے قانون دان مشہور تھے۔‘‘ ’’بھئی یہ عجیب اتفاق ہے کہ جنت میں رہنے کو جو گھر ملا ہے، وہ میر تقی میر اور میرزا غالب کے عین درمیان میں ہے، اور بالکل سامنے ہی بیرسٹر اقبال مقیم ہیں۔ اب اکثر ان سب سے ملاقات رہتی ہے، بلکہ ان تینوں کے روز روز کے اصرار پر خود مَیں نے بھی آزاد نظم لکھنا شروع کر دی ہے۔‘‘ ’’تو گویا پہلے آپ نے قوم کو آزادی دلائی ، اب نظم بھی آزاد پسند کی!!‘‘ ’’(ہنستے ہوئے) بس ایسا ہی سمجھ لو!!‘‘ ’’آپ نے کبھی میر و غالب سے اس دیس سے متعلق رائے طلب نہیں کی؟‘‘ ’’ مَیں نے جب بھی کبھی پاک و ہند کی تقسیم کا ذکر کیا، میر صاحب ایک آہ بھر کے اپنی ’اجڑے دیار‘ والی غزل سنا کے رونے لگتے ہیں، اور ٹک روتے روتے سو جاتے ہیں۔‘‘ ’’کبھی میرزا سے ملکی مسائل پہ بات ہوئی؟‘‘ ’’میرزا کا وہی لاابالی پن یہاں بھی برقرار ہے۔ مَیں نے جب کبھی اصلاحِ احوال کی بات چھیڑی، وہ اپنا ایک ہی مختصر سا مصرع ’ کوئی صورت نظر نہیں آتی‘ پڑھ کر شرابِ طہور کا دنیاوی شراب سے موازنہ کرنے لگتے ہیں۔‘‘ ’’اور ہر معاملے میں دور کی کوڑی لانے والے اقبال کیا کہتے ہیں؟‘‘ ’’میرے ارد گِرد کے لوگوں میں سب سے مندا حال اقبال کا ہے۔ نہ کچھ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے۔ تہمد کے اوپر بنیان پہنے بے آگ کا حقہ گڑگڑاتا رہتا ہے ، ملکی حالات کا تذکرہ چھڑے تو بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ نہایت رقت انگیز انداز میں اپنا ہی یہ مصرع گنگناتا ہوا مضافات کی جانب نکل جاتا ہے: ع من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا…‘‘