تہذیب اور شائستگی کے پیمانوں پر غزل استوار کرنے والی حمید شاہیں غزل سرا تھی تو رہ رہ کر میرا دھیان مقبوضہ کشمیر کے دلیر حریت پسندوں کی طرف جا رہا تھا جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں مگر نہتے ہیں۔ عزم و استقلال بھی تو جی داروں کے ساتھ ہے۔ غزل کے اشعار تھے: میرے جوتے مرے اپنے ہی لہو سے تر ہیں چار سو گنگ دریچے ہیں مقفل در ہیں شیر کی چال شکاری کو بتا دیتی ہے غار کی گود میں پلتے ہوئے بچے نر ہیں جن کے ہاتھوں میں لکیریںنہیں رکھی جاتیں ہم سے ڈر شہر ستم ہم وہی مٹھی بھر ہیں یہ ایسے ہی لوگ ہیں کہ روشنی بن کے اندھیروں میں اتر جاتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو جاں سے گزر جاتے ہیں۔ بہرحال جس تقریب میں بیٹھا میں غزل سماعت کر رہا تھا یہ ادبی تنظیم روش انٹرنیشنل کی ملن پارٹی تھی جو امریکہ سے آئی ہوئی روش کی مرکزی صدر الماس شبی کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی اس سے پیشتر اس تنظیم کی روح رواں معروف ادیبہ اور شاعرہ رخسانہ نور تھیں اس کے سرپرست حاجی عبدالستار اور بانی ثناء اللہ شاہ ہیں۔ اس تنظیم کے کریڈٹ پر ادبی تقاریب ہی نہیں سوشل ورک بھی ہے جس میں ضرورت مندوں کی مدد بھی شامل ہے اور سیلاب و زلزلہ زدگان کے حوالے سے مالی تعاون بھی۔ دسمبر اور جنوری کے یخ بستہ زمستان کے بعد اب دھوپ کی تمازت نے موسم بدلا ہے تو تقاریب میں بھی ملاقات منعقد ہونے لگی ہیں صدارت حمیدہ شاہین کی تھی اور نظامت حسن بانو نے بہت اچھے انداز میں کی۔ شاعرات کی تعداد زیادہ تھی یعنی غالب اکثریت اتنے زیادہ شاعر کم کم ہی ایک جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ نہایت عمدہ شاعری سننے کو ملی مقامی ہوٹل کا ایک فلور تو بھرگیا تھا۔ وہاں کے بیرے اور دوسرے ملازمین بھی اردگرد منڈلاتے ہوئے ادھر کان لگائے ہوئے تھے آپ بھی پڑھ لیں: مرا نہیں تو وہ اپنا ہی کچھ خیال کرے اسے کہو کہ تعلق کو پھر بحال کرے (شہزاد نیّر) ایک لڑکی تھی شازیہ مفتی پھر وہ لڑکی مجھے ملی ہی نہیں (شازیہ مفتی) مری آنکھوں سے تم طلوع ہو کر کس کی آنکھوں میں ڈوب جاتے ہو (انمول گوہر) ریزہ ریزہ مجھ کو میرے دوستوں نے کر دیا پتھروں کا کام تھا جو آئینوں نے کر دیا (افضل پارس) مزے کی بات یہ کہ نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک رسمی سا مشاعرہ تھا جس میں فقرے بازی بھی چل رہی تھی اور چھیڑ چھاڑ بھی۔ اس میں اردو کے ساتھ پنجابی ذائقہ بھی تھا کہ ماں بولی کی اپنی تاثیر ہے۔ ویسے تو اب اردو بھی پنجاب میں ماں بولی کی طرح ہے کہ آج کل کی مائیں بچوں کے ساتھ اردو ہی بولتی ہیں تو آنے والی نسل اپنی مادری زبان اردو ہی کو بتایا کرے گی۔ چلیے اس بہانے سب قومی زبانیں لڑی میں پروئے جائیں گے۔ تاہم مقامی زبانوں کا اپنا ایک حسن ہے گلدستے کے مختلف پھولوں کی طرح۔ مزے کی بات یہ کہ ہماری مہمان الماس شبی بھی پنجابی میں کمال کہتی ہیں۔ وہ پنج ریڈیو کی بھی کرتا دھرتا ہیں جو پوری دنیا میں چل رہا ہے اس میں بھی ان کا لب و لہجہ پنجابی ہوتی ہے۔ چلیے پنجابی آہنگ بھی دیکھ لیں: چٹے دُدھ پتاتے نوں چم لاں تیرے ہاسے نوں (ثانیہ شیخ) کرناں ہوندیاں نیں سرناواں تاں نہیں دسناں پیندا سورج نوں ہر تڑکے اپنا ناں نہیں دسناں پیندا (الطاف ضامن چیمہ) اساں سادم سادے بندے ایتھے ہور طراں دے دھندے چٹا دُدھ دوپٹہ میرا تے ہتھ دنیا دے گندے (الماس شبی) اب اتنے سارے شاعروں کو کالم کا حصہ بنانا ممکن نہیں۔ مگر اس سے پہلے کہ ہمارے سینئر رہ جائیں میں چاہتا ہوں میں اپنے قارئین تک ان کی شاعری پہنچا دوں۔ مجھے معلوم ہے کہ جو رہ جائیں گے وہ مفت میں مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔ شاعری تو خیر سب نے ہی لاجواب سنائی تھی۔ بات ہوتی ہے دو دلوں کے بیچ اور دو خاندان بولتے ہیں (زرتاش سید) بول دنیا ہم تیرے اعزاز میں کیا کیا کریں جو تجھے بھائے اسی انداز میں کیا کیا کریں (انیس احمد) طیور غم کے کسی اور سمت جا نکلے تمہیں یہ کس نے کہا تھا فسوں نہیں ہوتا (شفیق احمد) کہانیاں نہ ختم ہونگی اختتامیوں کے ساتھ مجھے قبول کرمری تمام خامیوں کے ساتھ (رخشندہ نوید) مجروح مرا دل تو کرائے کا مکاں ہے خالی بھی جو ہو جائے تو قبضہ نہیں ملتا (حسین مجروح) جن کے بغیر جی نہیں سکتے تھے جیتے ہیں ثابت ہوا کہ لازم و ملزوم کچھ نہیں (ڈاکٹر ضیاء الحسن) اس مشاعرہ میں ارم وقار‘حرا رانا‘ اعجاز قریشی‘ روبینہ چودھری‘ رابعہ رحمن اور کئی دوسرے شعرا بھی تھے۔ آخر میں روش کے سرپرست حاجی عبدالستار نے سب مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو