اسی کی دہائی میں جنید جمشید جیسا چاہے جانے والا اور کوئی گلو کار نہ تھا۔شعیب منصور کے لکھے ہوئے گیتوں کو جنید جمشید کی آواز لازوال بناتی رہی۔ وہ کون تھی تمام شہر جس کے حسن میں گم تھا۔ تمہارا اور میرا نام جنگل میں درختوں پر ابھی لکھا ہوا۔ میرا دل نہیں availableکوئی اور در کھٹکھٹائو۔ کتنے ہی گیت ہیں جو اس وقت حرزجاں بنے۔ اور آج پھر اس وقت کو یاد کر کے تحریر میں خودبخود امڈ رہے ہیں۔ یاد آتا ہے کہ اس وقت سکول کا زمانہ تھا اور دل دل پاکستان ہم نے بھی سکول میں کئی مرتبہ ساتھی طالبات کے ساتھ مل کر گایا۔سب کی طرح میں بھی جنید جمشید کے مداحوں میں شامل تھی۔ شہرت کی دیوی اس گلوکار پر بے طرح مہرباں تھی۔ میگزین کے چمکتے ہوئے صفحات جنید جمشید کی دلپذیر تصاویر سے سجے ہوتے۔ پاکستان سے لے کر دنیا بھر میں وائٹل سائنز کے کنٹرس ریکارڈ رش لیتے۔ دولت اس پر بارش کی طرح برس رہی تھی۔ جنید جمشید کی اسی غیر معمولی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے‘ جادوگر لکھاری اور ڈائریکٹر شعیب منصور نے اعلان کیا کہ وہ جنید جمشید کے لئے ایک فلم جلد بنا رہے ہیں۔ اس اعلان سے جنید جمشید کے مداحوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ نوے کی دہائی کے وسط سے اخیر تک شعیب منصور کئی بار فلم بنانے کا اعلان کر چکے۔ مگر جنید جمشید ہاتھ نہیں آتے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب اس گلیمرس گلو کار کے در دل پر روحانیت دستک دے رہی تھی۔ وہ شعیب منصور کے لکھے ہوئے گیت گاتا رہا۔ مگر اندر کہیں اس کے دل کی دنیا بدل رہی تھی۔ اس کے گلوکاری کے کیریئر کا آخری گیت بہت معنی خیز ہے۔ جو لکھا تو شعیب منصور نے لیکن اس کی فرمائش پر اس کے احساسات کی ترجمانی کی۔ چلو عشق کا کہا مان کر‘اپنا صنم پہچان کر‘کسی ایسے رنگ میں رنگ جائیں‘ سب سے جدا نظر آئیں۔ گلیمر اور شہرت کی بلندیوں پر پرواز کرتے ہوئے جنید جمشید نے اپنا ’’صنم‘‘ پہچان لیا تھا۔ جلد ہی انہوں نے شوبز سے کنارہ کش ہونے کا اعلان کیا۔دنیا حیران تھی کہ آخر شوبز کی چکا چوند میں زندگی اڑتی پتنگ کی طرح گزارنے والے کی زندگی میں 360ڈگری کے زاویے کی تبدیلی کیسے آئی۔ میں ایک فین کے طور پر جنید جمشید کے انٹرویز فالو کرتی تھی۔ تو ایک دو بار ان کے انٹرویوز میں پڑھا کہ ان کی اس تبدیلی کے پیچھے ایک مذہبی شخصیت طارق جمیل کا ہاتھ ہے۔اس وقت پہلی بار مولانا طارق جمیل کا نام سنا۔2003ء اور 2004ء کا زمانہ تھا جب جنید جمشید تبدیلی کے عمل سے گزر رہے تھے۔ ایک اخبار میں میری ملازمت کے آغاز کا زمانہ‘ جنید جمشید سے ایک انٹرویو کا موقع ملا۔ ظاہر ہے کہ ہماری خوشی کی تو انتہا نہ تھی کہ اپنے پسندیدہ گلو کار سے ملنے اور بات کرنے کا موقع ملا۔ان کی زندگی جس رخ پر مڑ رہی تھی اس پر تو بات ہونا ہی تھی۔ سو مولانا طارق جمیل کا تفصیلی تذکرہ اس روز تو سنا۔ جنید جمشید میری تربیت کسی مذہبی گھرانے میں نہیں ہوئی۔ میں تو مولویوں سے دور بھاگتا تھا۔ مگر مولانا طارق جمیل کی بات میں ایسا اثر اور مٹھاس تھی۔ کوئی جادو تھا جس نے میرے دل کی دنیا بدلنا شروع کر دی۔ میرے ہر سخت سوال کا جواب مولانا طارق جمیل بہت نرمی اور محبت سے دیتے۔ آج یہ بات یاد آتی ہے کہ مولانا طارق جمیل کی بطور عالم دین سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں رواداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ بات نرمی اور مٹھاس سے اس انداز میں کرتے ہیں کہ دلوں کے رنگ اترنے لگتے ہیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2004ء کے بعد جنید جمشید نے گلوکاری چھوڑ کر نعت خوانی کا آغاز کر دیا تھا اور رب العزت نے اس میں بھی انہیں بے پناہ عزت سے نوازا۔ اسی زمانے میں پاکستانی کرکٹ ہیروز میں بھی ایسی ہی تبدیلی دکھائی دینے لگی۔ کرکٹرز کے حلیے بدلنے لگے۔ پریکٹس کے دوران باجماعت نماز ہونے لگی۔ اس ساری تبدیلی کے پیچھے مولانا طارق جمیل موجود تھے۔وہ اس وقت شہرت اور گلیمر کے پروردہ لوگوں کی زندگیاں بدل رہے تھے مگر اپنے حوالے سے وہ کسی قسم کی شہرت سے گریز کرتے تھے۔ اس دور میں ان کا کوئی تفصیلی باتصویر انٹرویو۔ کم از کم میں نے تو نہیں دیکھا اور یقینا شائع بھی نہیں ہوا۔ سو اس وقت وہ لوگ کہہ رہے کہ مولانا ‘ میڈیا کو برا بھلا کہتے ہیں۔ حالانکہ میڈیا نے انہیں پاپولر کیا۔ بالکل جھوٹ اور لغو ہے۔ میڈیا نے انہیں ہرگز پاپولر نہیں کیا۔اس کا پورا پس منظر میں نے بیان کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ کوئی خدا شناس شخص ہی دوسروں کو خدا تک لے کر جاتا ہے۔ اور پھر عام لوگوں کے ساتھ وہ لوگ جو شوبز کی چکا چوند۔ شہرت اور گلیمر میں زندگی بسر کر رے تھے۔ مگر سب کچھ ہونے کے باوجود ان کے اندر ایک روحانی خلا تھا۔ اللہ کریم نے مولانا طارق جمیل کو ان کے روحانی خلا کو پر کرنے کاوسیلہ بنا کر انہیں خصوصی اکرام سے نوازا اور وہی ہے جسے چاہے عزت دے۔ جسے چاہے ذلت دے۔ مولانا پر درباری ہونے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ وہ اپنی رواداری اور دل کے غیر معمولی اخلاص کی بدولت حکمرانوں کے خیر خواہ رہے ہیں۔ جس کے پیچھے پاکستان کی خیر خواہی مقصود ہے۔ کچھ چیزوں میں مولانا سے ضرور چوک ہوئی اگر وہ حکمران وقت کے سامنے اس کی غلطیوں کا تذکرہ نہ کر سکتے تو یہ ان کے اندر کی کمزوری ہو گی۔ تو کیا مولانا طارق جمیل انسان نہیں۔ وہ کوئی مافوق الفطرت مخلوق ہیں نہ فرشتے۔ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے۔ میرے دل میں مولانا کا بے حد اکرام ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں ان کی مداح ہوں۔ جو کچھ اس روز مولانا نے میڈیا کے جھوٹ اور بے حیائی کے حوالے سے کہا میں اس سے متفق ہوں۔ دو جگہ مجھے ان سے اختلاف ہے۔ایک یہ کہ انہوں نے بے حیائی کا سارا بوجھ عورتوں پر ڈال کر مردوں کو استثنیٰ کیوں دیا۔؟ دوسری بات پورے معاشرے اور میڈیا کو منافق اور جھوٹا کہا تو حکمران وقت کو استثنیٰ کیوں دیا۔؟ باقی مولانا طارق جمیل‘ اس دور میں تعصب بغض اور فرقہ پرستی سے بالاتر ایک بے مثل قیمتی مبلغ اسلام ہیں۔ خدا شناس ہیں‘ لوگوں کو دنیا کی بھیڑ سے نکال کر خدا تک لے جاتے ہیں۔ وہ خودکشی کے دہانے پر کھڑے کئی شوبز سیلبرٹیز کے روحانی خلا کو بھرنے والے اللہ کے خاص اور نیک بندے ہیں۔ پس تحریر:رابی پیرزادہ کا مولانا کے بارے میں تازہ ترین ٹویٹ ضرور پڑھیں۔