بیماریوں کے خلاف قدرت نے ہمارے جسم میں قوت مدافعت کی صورت ایک حفاظتی میکا نزم بنا رکھا ہے جو بیماریوں کے خلاف ایک حفاظتی حصار قائم کرتا ہے ۔گزشتہ برس کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ انسانوں کو اپنا مدافعتی نظام مضبوط کرنا پڑے گا۔ صرف اسی صورت میں بیماری کا مقابلہ کرناممکن ہے۔جن افراد کا مدافعتی نظام مضبوط تھا انہوں نے بیماری کے وار بہتر انداز میں سہہ لیے مگر جن افراد کا مدافعتی نظام کمزور تھا وہ بیماری کے سامنے ہار مان گئے یا بیماری کا حملہ ان پر بہت شدید اور تکلیف دہ رہا۔ جسمانی مدافعتی نظام کے ساتھ ساتھ قدرت نے انسان کے اندر ایک روحانی مدافعتی نظام بھی رکھا ہے۔روحانی مدافعتی نظام کا تصور دنیا کے ہر مذہب میں موجود ہے حتی کہ ان لوگوں میں بھی جو ایک اللہ کو نہیں مانتے مگر ایک سپریم پاور پر یقین رکھتے ہیں۔بھارت سے تعلق رکھنے والی بی کے شوانی مائنڈ پاور کی استاد ہیں۔ اپنی گفتگو میں بار بار بھگوان کا تذکرہ کرتی ہیں کہتی ہیں کہ اگر کوئی مریض ریگولر علاج کے ساتھ بطور روحانی علاج مراقبہ کرتا رہے اور بار بار یہ الفاظ دہرائے کہ میں ایک صحت مند روح ہو ں۔میرے اندر ڈیوائن پاور (divine power)ہے جو مجھے ہر بیماری سے پاک کررہی ہے۔اس طرح کی میڈ یٹیشن ایک سپرچوئپل ہیلنگ کے طور پر بار بار کی جائے تو مریض کا جسم اس کے رد عمل میں صحت مند ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ڈیوڈ کا تعلق برطانیہ سے ہے وہ ایک سپرچوئل ہیلر ہے میں نے اسکا ایک مضمون پڑھا تو سوچا کہ سپرچوئل ہیلنگ کیلئے جو چیزیں برطانیہ میں بیٹھا ہوا ایک عیسائی مذہب کا شخص تجویز کر رہا ہے یہ وہی کچھ ہے جو بحیثیت مسلمان ہم سوچ سکتے ہیں۔اپنے مضمون میں وہ لکھتا ہے کہ سپرچوئل ایمیو نٹی کی طاقت کے لیے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم دعا مانگیں چرچ جائیں اور روزانہ بائبل کا مطالعہ کریں رات کو سونے سے پہلے وہ گیت سنیں جو چرچ میں عبادت کے دوران سنائے جاتے ہیں۔ اس سے طبیعت کے اندر سکون اور ٹھہراؤ پیدا ہوگا اور روحانی مدافعتی نظام مضبوط ہوگا۔ یعنی دوسرے الفاظ میں اپنی زندگی کو اپنے خالق کے ساتھ جوڑ دیںاب آتے ہیں کہ بطور مسلمان ہم روحانی مدافعتی نظام کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں اور قدرت کے اس عظیم الشان اور حیرت انگیز نظام سے کیسے اپنی زندگیوں میں انقلاب لا سکتے ہیں۔مدافعتی نظام کا کا تذکرہ وبا کے دور سے پہلے کبھی بھی اس طرح نہیں ہوا۔ اب بھی تاکید یہی کی جاتی ہے کہ مدافعتی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے وٹامن سی کا استعمال کریں ڈرائی فروٹ کھائیں صبح سویرے اٹھ کے سیر کریں کوئی جسمانی ورزش کریں۔ مختلف طرح کے قہوے تجویز کیے جاتے ہیں۔جیسے جسم میں انفیکشن ہوتی ہے تو اس کا علاج کیا جاتا ہے اسی طرح ہمارا روحانی مدافعتی نظام بھی مختلف بیماریوں سے ان فیکٹ ہوتا ہے یہ بیماریاں ہماری سوچ اور ذہین میں پیدا ہوتی اور پنپتی ہیں۔ غم وغصہ، اداسی اگرچہ نارمل انسانی جذبات ہیں لیکن اگر ان احساسات کی کیفیت مسلسل ذہن پر حاوی رہے تو یہ ایک بیماری ہے۔ حسد، انتقامی جذبات، بدلہ لینے کی خواہش، ماضی ناخوشگوار یادوں کو اپنے سر پر سوار رکھنا، کسی پچھتاوے کا اسیر رہنا۔۔ حسرت ناتمام کو یاد رکھنا اورتشنہ آرزووں کی تکمیل کی خواہش میں ہمہ وقت جلتے رہنا یہ تمام وہ منفی کیفیات ہیں جو مستقل رہیں تو بیماری کی صورت میں ہمارے روحانی مدافعتی نظام کو کمزور کرتی ہیں۔ بعض اوقات ہم چھوٹی چھوٹی ناخوشگوار باتوں پر اوور تھنکنگ کرکے اس رائی کو اپنے لئے پہاڑ بنا لیتے ہیں یہ بھی ایسا منفی رویہ ہے جو رفتہ رفتہ ہمارے مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتا ہے جس کا اظہار پھر کسی نہ کسی جسمانی بیماری کی شکل میں ہوتا ہے۔جو کچھ ہم سوچتے ہیں ہمارا جسم اسی انداز میں ردعمل دیتا ہے۔ہم پر ہماری سوچ کی حکمرانی ہے۔ جو ہماری سوچ ہے وہی ہماری روح ہے۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ کہا جاتا ہے فلاں ایک شیطانی سوچ کا بندہ ہے اور شیطانی روح ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ فلاں بڑا نیک بندہ ،بڑی نیک روح ہے۔نیک روح اس لیے کہا جاتا ہے کہہ اس شخص کی سوچ نیک ہے۔منفی سوچ ہماری روح کو بیمار کرتی ہے اور ہمارے روحانی مدافعتی نظام کو کمزور کرتی ہے جس سے ہمارا جسمانی مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے اور جسم مختلف بیماریوں کو دعوت دینے لگتا ہے،اپنی روح کو پیوریفائر کرنے کے لیے ہمیں منفی سوچوں کے آکٹوپس سے نکلنے کی ہمہ وقت کوشش کرنی پڑے گی۔ یہ ایک مسلسل جنگ ہے جو ہم نے کرنی ہے اور خود کو منفی سوچوں سے باہر نکالتے رہنا ہے کیونکہ انسان فطری طور ایسا ہے کہ جو اس کو نہیں ملا اس کی خواہش میں مبتلا رہتا ہے۔ جو برا ہوا اس کے بارے میں سوچتا ہے۔خالی گلاس کا ماتم کرتا ہے۔ قرآن میں بھی ہے کہ انسان بنیادی طور پر ناشکرا ہے۔ ناشکری کی کیفیت میں سب سے زیادہ منفی سوچیں ہم پر حملہ آور ہوتی ہیں۔اپنے روحانی مدافعتی نظام کو مضبوط کرنے کے لئے سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ ہم اپنے خالق کے ساتھ جڑ جائیں، نماز کی ادائیگی اور قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام کریں۔دعا اور ذکر سے اپنی روح پر لگے منفی سوچ کے سیاہ دھبے مٹاتے رہیں ۔ہمہ وقت اس کے شکر گزار رہیں جو اس نے ہمیں دیا اور جو اس نے ہمیں نہیں دیا ہر صورت میں ہم اس کے شکر گزار رہیں۔مغرب میں شکر گزار رہنے یعنی gratefulnessکو وٹامن G کا نام دیا گیا ہے۔یہ وہ ضروری وٹامن ہے جو ہمیں منفی سوچوں سے بچا کر ہمارے روحانی مدافعتی نظام کو مضبوط کرتاہے۔ زندگی میں آنے والے ہر دکھ تکلیف اور بیماری کو اللہ کی طرف سے آزمائش سمجھ کر یقین رکھیں کہ وہ ہر تکلیف کو راحت میں بدل دے گا اور ہر مشکل کو آسانی سے آراستہ کریگا۔بس یہی سوچ کر شکرگزار رہیں اور اپنے روحانی مدافعتی نظام کو کمزور نہ پڑنے دیں۔