زندگی کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے روحی بانو روز مرتی تھی۔ شاید اسی لیے 25 جنوری 2019ء کو روحی کی کلینکل موت کی خبرمیں کچھ نیا پن نہیں تھا۔ روز مرنے کا ایک تسلسل ہو جیسے۔ ہاں مگر وہ روزمرنے کی اذیت سے نکل کر آسودہ ہوگئی۔ روحی بانو کی موت پر وہ روایتی جملے نہیں لکھے جاتے جو عموماً مشہور اور معروف مرنے والوں کی موت پر کہے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ فلاں کی وفات پر بہت دکھ ہوا۔ ان کے جانے سے خلا پیدا ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ روحی بانو کی افسوس بھری زندگی جن کے سامنے تھی‘ انہیں اس کی موت پر افسوس کیسے ہوسکتا ہے۔ ہاں ایک اطمینان اور آسودگی سی کہ چلو حیات کے زنداں سے چھوٹ گئی۔ کتاب عمر کا ایک اور باب ختم ہوا۔ شباب ختم ہوا۔ اک عذاب ختم ہوا۔ یہاں شباب کی جگہ زندگی اور حیات کو رکھ لیں تو بات سمجھ میں آ جائے گی۔ مگر روحی بانو کے معاملے میں زندگی بھی کہاں زندگی جیتی تھی‘ کیا محض سانسوں کے آنے اور جانے کو زندگی کہیں گے جس میں نہ توازن نہ ترتیب‘ نہ خواہش نہ خواب‘ نہ خوشی نہ غم‘ نہ احساس نہ جذبات۔ اقبال نے کہا تھا کہ زندگی کیا ہے‘ عناصر میں ظہور ترتیب۔ موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا۔ اس کلیے کو دیکھیں تو روحی بانو کب کی موت سے ہمکنار ہو چکی تھی۔ روحی کی زندگی جن عناصر سے مل کر بنی اسے زندگی کے غموں نے بے ترتیب کردیا تھا اور اس میں سب سے بڑا غم اس کے جوان بیٹے کی ناگہانی موت تھی۔ محبتوں میں دھوکے اور بے وفائی کے غم‘ شادیوں میں ناکامی کا دکھ‘ پھر شہرت اور ناموری کا آفتاب جب ڈھلنے لگا اور ڈھلتے ڈھلتے دور افق کے پار غروب ہوگیا تو یہ سارے دھچکے اس حساس فنکارہ کے لیے ایک بوجھ بن گئے۔ مجھے سردیوں کی وہ دوپہر یاد آتی ہے جب میں روحی سے ملنے فائونٹین ہائوس گئی۔ روحی بانو کے انٹرویو کی اسائنمنٹ پر مجھے کام کرنا تھا۔ میں جب اپنے فوٹوگرافر عارف نجمی کے ہمراہ فائونٹین ہائوس پہنچی تو فائونٹین ہائوس کے روح رواں ڈاکٹر ہارون رشید نے بتایا کہ روحی عموماً کسی سے ملاقات نہیں کرتی بلکہ وہ نئے ملنے والوں پر کبھی کبھی شدید ردعمل ظاہر کرتی ہے۔ میری یقینا روحی بانو سے پہلی ملاقات تھی اور میں اسی لیے سینئر ترین فوٹو گرافر عارف نجمی کو اپنے ساتھ لائی تھی جو اچھے وقتوں میں روحی بانو کے قریبی ساتھیوں میں شامل رہے تھے۔ فائونٹین ہائوس میں خواتین نفسیاتی مریضوں کے بلاک میں روحی بانو کا کمرہ پہلی منزل پر تھا۔ ہمارے ساتھ فائونٹین کی ایک ڈاکٹر تھیں جب ہم روحی بانو سے ملنے ان کے کمرے میں گئے۔ حیرت انگیز طور پر انہوں نے عارف نجمی کو پہچان لیا۔ میں ان کے لیے کتابوں کی صورت میں کچھ گفٹ لے کر گئی تھی کیونکہ مجھے پتہ چلا کہ وہ شاعری شوق سے پڑھتی ہیں۔ تھوڑی سی پس و پیش اور ردعمل کے بعد روحی بانو میرے ساتھ باتیں کرنے لگیں۔ فائونٹین ہائوس میں روحی بانو کے کمرے میں لوہے کا ایک بیڈ پڑا تھا۔ ایک دراز نما لکڑی کی الماری تھی۔ باتیں کرتے کرتے وہ اک دم سے جذباتی ہو کر اٹھیں اور پلاسٹک کا شاپر الماری سے نکال کر لے آئیں۔ کہنے لگیں یہ دیکھو میں تمہیں اپنے کپڑے دکھاتی ہوں۔ اس لفافے میں روحی بانو کے شلوار قمیض کے دو جوڑے گول مول سے لپیٹ کر رکھے ہوئے تھے۔ میں تو بس تاسف اور حیرت میں ڈوبی ہوئی ماضی کی نامور فن اداکاری میں یکتا اداکارہ کو دیکھتی رہی۔ گاہے مجھے یہ گمان ہوتا تھا کہ شاید یہ بھی روحی بانو کی اداکاری کا کوئی بہروپ ہے ورنہ وہ تو دلوں کی ملکہ ہے۔ وہ ایسے اجڑے حال میں کیسے ہو سکتی ہے۔ میں دو دن روحی بانو سے ملنے فائونٹین ہائوس جاتی رہی۔ وہاں اس کا اچھا علاج ہورہا تھا۔ کھوئی ہوئی یادداشت بہتر ہورہی تھی۔ وہ ماضی‘ اپنے نام اور کام کو پہچانتی تھی۔ گفتگو میں کئی معروف لکھاریوں اور شاعروں کے حوالے دیتی کہ فلاں نے مجھ پر نظمیں لکھیں۔ میرے لیے ڈرامے لکھے۔ ظاہر ہے وہ روحی بانو تھی۔ جس کے لیے کردار تخلیق کئے جا سکتے تھے۔ منو بھائی نے پی ٹی وی کے کئی شاہکار ڈرامے روحی بانو کو سامنے رکھ کر لکھے۔ اس کی شخصیت میں ایسا چارم تھا جو تخلیق کاروں کے لیے انسپریشن کا باعث بنتا۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے اس کے عاشق ہو جاتے اور روحی بانو کو اس کا بخوبی اندازہ تھا۔ اس وقت جب وہ تقدیر کی راہوں میں رُل گئی تھی مرحوم ڈاکٹر ہارون رشید‘ اللہ انہیں جنت میں جگہ دے‘ انہوں نے روحی بانو کے علاج پر اس قدر محنت کی کہ اسے باور کرا دیا کہ وہ کون ہے۔ ایک اداکارہ کے طور پر اس کا ماضی کیا ہے اور اس کے لیے فائونٹین ہائوس میں روزانہ ایک کلاس کا اہتمام کیا جاتا جہاں روحی بانو اداکاری کے رموز سکھاتی تھی‘ وہ اس روز ہمیں بھی اداکاری والی کلاس میں لے گئی۔ نہایت دلچسپ منظر تھا۔ اداکاری سیکھنے والے بھی فائونٹین ہائوس کے زیرعلاج ایسے مریض تھے جو صحت اور بہتری کے راستے پر گامزن تھے۔ روحی بانو انہیں بڑی لگن اور جذبے کے ساتھ اداکاری سکھاتی۔ یہ بھی دراصل ان کے علاج ہی کا ایک مرحلہ تھا۔ ٹھیک ٹھیک ہوتے اچانک روحی بانو کی ذہنی صحت پھر سے بگڑتی چلی گئی۔ اس نے فائونٹین ہائوس بھی چھوڑ دیا۔ کبھی کبھی روحی بانو کے حوالے سے خبریں آتی رہیں اور ہر خبر میں وہ کسی داستان کا گم شدہ کردار دکھائی دیتیں۔ روحی بانو شہرت کے بام عروج پر چمکیں اور ایسے کہ ان جیسا کوئی دوسرا نام دکھائی نہیں دیتا مگر پھر تقدیر کی راہوں پر ایسے رُل کر رہ گئیں کہ سانس آتے جاتے رہے مگر زندگی ان سے روٹھ چکی تھی۔ مر تو و ہ برسوں پہلے گئی تھی۔ 25 جنوری 2019ء کو تو صرف روحی بانو کی کلینکل موت واقع ہوئی۔