وفاقی حکومت نے رواں ماہ میں دوسری بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دیدی ہے۔ فیصلے کے تحت پٹرول کی قیمت میں تین روپے بیس پیسے اور ڈیزل کے نرخوں میں دو روپے پچانوے پیسے اضافہ کیا گیا ہے۔ مٹی کا تیل 3روپے اور لائٹ ڈیزل چار روپے بتالیس پیسے مہنگا ہو گیاہے۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد پٹرول 109.20اور ڈیزل 113.19پیسے فی لٹر میں دستیاب ہو گا۔ دوسری طرف ادارہ برائے شماریات نے مہنگائی کے متعلق تازہ رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گھی اور چینی سمیت 23اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گھی کی فی کلو قیمت میں 7روپے‘ دال مونگ کی قیمت میں 2روپے اضافہ ہوا۔ لاہور اور فیصل آباد میں گھی 290روپے فی کلو بک رہا ہے۔ دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے مختلف پالیسیاں نافذ ہیں۔ ملائشیا جیسے ممالک تیل درآمد کرتے ہیں۔ پھر تیل پر سبسڈی دے کر عوام کو کم نرخوں پر فراہم کرتے ہیں۔ اس کا اثر وہاں کی معیشت پر بہت اچھا رہا ہے۔ ملائشیا میں سیاحت کا شعبہ ہر سال کروڑوں مہمانوں کی خاطر داری کرتا ہے۔ یہ سیاح مقامی ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ سبسڈائز تیل کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ ‘ جہازوں ‘ ریلوں اور کاروں کے کرائے خاصے کم ہیں۔ کرائے کم ہونے پر سیاح اور مقامی افراد کم خرچ پر ایک علاقے سے دوسرے علاقے کو جا سکتے ہیں۔ یہ کسی ملک کے معاشی ماڈل پر منحصرہے کہ وہاں تیل کی قیمتوں کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں آسودہ حال طبقات ٹیکس سے انکار کر دیتے ہیں۔ حکومت ہر سال بجٹ میں ٹیکس اہداف مقرر کرتی ہے لیکن کسی ایک برس بھی یہ اہداف حاصل نہیں ہو پائے۔ اس صورت حال میں ماضی کی حکومتوں نے بہتر جانا کہ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس بڑھا کر قومی ٹیکس اہداف حاصل کئے جائیں۔مثال کے طور پر بین الاقوامی منڈیوں سے جو تیل پاکستان 60روپے فی لٹر خریدتا ہے وہ کئی طرح کے ٹیکسوں کے بعد مقامی مارکیٹ میں 110روپے کے لگ بھگ فروخت ہوتا ہے۔ اس ماڈل نے ٹرانسپورٹ کرائے بڑھا دیے‘ لوگوں کا روزگار یا سیاحت کے لئے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانا مشکل ہو گیا۔ عالمی مارکیٹ میں کورونا کی وبا کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی طلب بری طرح متاثر ہوئیں ،کارخانے اور ٹرانسپورٹ بن ہونے سے طلب کم ہوئی تو نرخ بھی کم ہو گئے ، ستر ڈالر فی بیرل والا تیل تیس ڈالر تک آ گیا ۔ دنیا میں سب سے زیادہ تیل استعمال کرنے والے ممالک امریکہ‘ بھارت روس اور یورپ بند ہو گئے۔ چین میں جزوی کام جاری رہا۔ حالات اس قدر دگرگوں ہو گئے کہ امریکی تیل کمپنیوں کے لئے ذخیرہ کرنے کی گنجائش ختم ہو گئی۔ آئل کی قیمت میں فی بیرل اگرچہ اب اضافہ ہوا ہے تاہم ابھی تک عالمی مارکیٹ میں تیل کے کم نرخوں نے بحران کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ پاکستان کی وزارت خزانہ کا خیال ہے کہ معاشی بحران اور کورونا کے باعث کاروباری سرگرمیاں کم ہونے سے حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ ٹیکس اہداف حاصل کر سکے۔ ان حالات میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی گنجائش پوری طرح عوام کو منتقل نہ کی گئی ، وزیر اعظم نے انکوائری کا حکم دیا لیکن کئی ماہ کے بعد بھی یہ رپورٹ عام نہیں کی جا رہی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ قیمتوں میں کمی بیشی اب طلب و رسد کے اصول سے نہیں حکومتی صلاحیت کمزور ہونے سے بھی ہوتی ہے۔ عمومی مہنگائی میں اضافے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اقتصادی پالیسوں میں ملک کے طاقتور طبقے کو فائدہ پہنچایا جا تا ہے اور اس کے اثرات براہ راست غریب عوام پر پڑتے ہیں۔ اقتصادی پالیسیاں ایسی بنائی جا رہی ہیں کہ اس میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جاتا۔ طاقتور طبقے اپنے مفادت کو ان پالیسوں میں ترجیح دیتے ہیں۔ یہ طبقات قومی دولت لوٹتے ہیں، قرضے لیتے ہیں اور بعد میں پارلیمان میں اپنے ان قرضوں کو معاف کروالیتے ہیں اور اس کا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ مہنگائی نے عوام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔روز بڑھتی مہنگائی نے شہریوںکی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ محدود آمدن میں انہیں سمجھ نہیں آتا کیا کریں، کس طرح اپنے اوراپنے خاندان کے لئے دو وقت کی روٹی کمائیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔حکومت کے تمام دعووں کے باوجود آٹا، چینی، گوشت، دال اور دیگر اشیاء خورونوش کی قیمتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں۔ ان سارے اخراجات کے لئے غریب کو بس اللہ کا ہی آسرا ہے ۔ معاشی ماہرین کے مطابق، کوئی ایک خاندان ہی نہیں، پاکستان میں برھتی ہوئی مہنگائی اور اس کی روک تھام کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات نہ ہونے کے باعث ملک میں کروڑوں نفوس پر مشتمل آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہے۔ بجا کہ وزیر اعظم کورونا کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے غریب افراد کے لئے فکر مند ہیں‘ احساس کفالت پروگرام اور دیگر منصوبے لائق تحسین ہیں۔ وہ اشیاء کے نرخ بڑھنے پر نوٹس بھی لیتے ہیں لیکن ان کی صوبائی حکومتیں مہنگائی کنٹرول کرنے اور ناجائز منافع خور مافیا کو قابو کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ اس بگاڑ کی اصلاح کے لئے حکومت سے غیر معمولی فیصلوں کی توقع کی جاتی ہے۔ عام آدمی حکومتوں کی کارکردگی کو اپنی جیب کی گنجائش سے ماپتا ہے‘ اسے جیب کٹ جانے کا خوف رہے تو پورے نظام سے اس کا بھروسہ اٹھ جاتا ہے۔