لاہور ( فورم رپورٹ : رانا محمد عظیم، محمد فاروق جوہری) تجارتی خسارہ میں کمی کو حکومت معیشت کی بہتری قرار دے رہی ہے لیکن مہنگائی اس وقت عروج پر ہے ۔ پاکستان کی معیشت مائنس میں چلی گئی تھی اب اگر کچھ بہتر ہوئی ہے تو اس کو مکمل بہتری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان خیالات کا اظہار معروف معاشی ماہرین نے روزنامہ 92 نیوز فورم سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا ایک بات تو ٹھیک ہے معیشت جو گراوٹ کا شکار تھی وہ بہتر ہو گئی اور گراوٹ رک گئی ہے ، کورونا کی وجہ سے بھی ہماری معیشت متاثر ہوئی لیکن باقی ممالک جتنی متاثر نہیں ہوئی۔ اشیا خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ سپلائی اینڈ چین کی وجہ ہے جب سپلائی اینڈ چین بہتر ہو گی قیمتوں میں کمی آ جائے گی ۔ ڈاکٹر شاہد حسن نے کہا کہ حکومت کا معیشت بہتری کا دعویٰ کسی حد تک ٹھیک ہے کیونکہ تجارتی خسارہ میں کمی ہوئی ، خسارہ 30 ارب ڈالر سے کم ہو کر 19 ارب ڈالر پر آ گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے امپورٹ کو کم کیا ہے اس کو علامتی کہہ سکتے ہیں ، دوسری جانب مہنگائی 4.7 پر تھی اور اب مہنگائی کی شرح 8.2 پر آ گئی ہے مطلب مہنگائی دوگنا ہو گئی ،مجموعی طور پر پاکستان میں غربت اور بے روزگاری بھی بڑھی ۔ ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ حکومت معیشت کی بہتری کی کیا تعریف کرتی ہے جب معیشت بالکل نیچے چلی جائے گی اور اکانومی پرفارم نہیں کر رہی ہو گی اور مائنس میں ہوں گے تو تھوڑی بہت بہتری کو آپ بہتری نہیں کہہ سکتے ،سروس سیکٹر نہ کھلا، ابھی تک ہوٹل انڈسٹری اور میرج ہالز کوکھولا گیا ،اب سیزن آئے گاتو پتہ چلے گا کہ کتنا فرق پڑتا ہے ، زراعت میں پروڈکشن ہماری 200 ملین آبادی کو کھلانے کیلئے کیلئے نا کافی ہے ، رہی سہی کسر صوبائی حکومتوں کے میکنزم نے پوری کر دی، صوبائی حکومتوں کا میکنزم ہی اتنا پرانا ہے کہ وہ فوڈ کے معاملات کو کنٹرول نہیں کر سکتے خود حکومتی اہلکار دکانداروں سے پیسے لے لیتے ہیں پھر ان کو چیزیں مہنگی بیچنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے ۔