لاہور (فورم رپورٹ : رانا محمد عظیم ، محمد فاروق جوہری )حکومت نے شرح سود غیر ضروری طور پر کم کی جس سے امپورٹس اور تجارتی خسارہ بڑھا، اب بھی شر ح سودکم از کم 9.25تک ہونی چاہئے تھی، حکومت کو شرح سود بڑھانے کی بجائے غیر ضروری ٹیکسز کو کم کرنا چاہئے ۔ان خیالا ت کا اظہار معروف معاشی ماہرین اور تجزیہ کار نے روزنامہ92 نیوز فورم سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔معروف معاشی ماہر ڈاکٹر شاہد حسن نے کہا کہ ہم نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ شرح سود کو کم از کم 9.25تک بڑھانا چاہئے لیکن حکومت نے اس کو 8.75تک کیا ، یہ کچھ بھی نہیں ، صرف معیشت کی بربادی سست ہوئی ، یہ رکے گی نہیں، مئی سے اب تک روپیہ 23روپے گرا اور سالانہ روپیہ46روپے گر چکا ہے ، پچھلے دس سالوں میں ڈالر کی قیمت میں5.6فیصد اضٖافہ ہوا تھا، اس حکومت میں 24فیصد اضافہ ہو چکا۔ معروف معاشی ماہر ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا شرح سود بڑھانے سے انویسٹمنٹ کم ہو جائے گی اور جب انویسٹمنٹ کم ہو گی تو روزگار کے مواقع کم ہو جائیں گے ، ڈالر حکومت سے کنٹرول نہیں ہو رہا، فنانس منسٹر مانے ہیں کہ سٹیٹ بینک ڈالر کی قیمت بڑھا رہا ہے ،سٹیٹ بینک کا بورڈ آ ف گورنر اس میں مکمل طور پر ملوث ہے ،ٹریڈ ڈیفیسٹ اس ماہ 36 بلین کا ہو گیا، ڈالر صرف اور صرف بیرون ملک پاکستانیوں کو نوازنے کیلئے بڑھایا جا رہا ہے تا کہ وہ انویسٹمنٹ کریں لیکن اس کے باوجود پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی ہوئی۔ معروف معاشی ماہر عابد سلہری نے کہا شرح سود بڑھانا ایک مشکل لیکن متوقع فیصلہ تھا کیونکہ تجارتی خسارہ بڑھ رہا تھا ۔