روس اور پاکستان کے وزراء خارجہ نے مشترکہ کانفرنس سے خطاب کیا۔ جس میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا پرامن حل ناگزیر ہے۔ کشمیر کا مسئلہ پون صدی سے حل طلب ہے۔ لیکن اقوام متحدہ سے لے کر یورپی یونین اور امریکہ تک کوئی بھی ملک اس مسئلے پر سنجیدہ نظر نہیں آتا۔کشمیر کا علاقہ جنوبی ایشیا میں ہونے کی بنا پر چین اور روس دونوں بڑی قوتیں اس مسئلے کے حل کے لئے سنجیدہ کاوشوں میں مصروف ہیں۔ روس کے بھارت کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات قائم ہیں، اس بنا پر روس کا کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی موقف کی حمایت کرنا ہمارے لئے بڑا معنی رکھتا ہے۔ ویسے بھی روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں شامل ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو کسی بھی معاملے پر ویٹو کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر پانچوں ملک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے متعلق حل پر زور دیتے ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی مرتبہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا بھی اعلان کیا تھا، جسے بھارت نے مسترد کر دیا تھا۔اس کے علاوہ برطانیہ بھی کشمیر کو باہمی اتفاق و اتحاد سے یہ مسئلہ حل کرنے پر زور دیتا ہے حالانکہ مسئلہ کشمیر برطانیہ کا ہی پیدا کردہ ہے۔ اس حوالے سے اس پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لئے سنجیدگی دکھائے۔ فرانس نے اپنے کاروباری مفادات کے باعث اس حساس مسئلے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو فرانس انسانی حقوق کا چمپئن بنتا ہے، انسانی حقوق کی بات کرتا ہے لیکن پون صدی سے مسئلہ کشمیر پر اس کی خاموشی باعث تشویش ہے۔روس نہ صرف سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے بلکہ اس خطے میں ہونے کی بنا پر وہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لئے سرگرم ہے۔5اگست 2019ء کو جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، تو پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی عروج پر چلی گئی۔ اس کشیدگی کے خاتمے کے لئے بھی روس نے کردار ادا کیا۔ تب بھی روس نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی، جسے بھارت نے مسترد کر دیا تھا۔ بعدازاں روس نے یہ اعلان کیا کہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس ہونا چاہیے اور اس اجلاس میں مسئلہ کشمیر کو زیر بحث لایا جائے کیونکہ ایک طویل مدت سے کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر نہیں آیا تھا۔ چین سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا دوست بھی ہے۔ ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھی دوستی کے بندھن میں بندھا ہوا ہے۔ اس لئے چین ہمہ وقت پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ چین کا کشمیر پر وہی موقف ہے جو پاکستان کا ہے جبکہ چین نے اس مسئلے کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر لے جانے کے لئے متعدد مرتبہ کوششیں بھی کی ہیں۔ درحقیقت مسئلہ کشمیر آخری بار دسمبر 1957ء میں زیر بحث آیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک کتنی تبدیلیاں آئی ہیں جبکہ پاکستان کا یہی موقف رہا ہے کہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے، اسے پس پشت ڈال کر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری کی خاموشی بھی سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ جب سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم ہو سکتا ہے۔ انڈونیشیا سے عیسائی آبادی پر مشتمل مشرقی تیمور کو آزاد مملکت قرار دلوایا جا سکتا ہے۔ جنوبی سوڈان کی آزادی کا انتظام کیا جا سکتا ہے، تو پھر کشمیر بارے عالمی برادری کیوں خاموش ہے۔ کیا یہ عالمی برادری کا دوہرا معیار نہیں۔ اس مجرمانہ خاموشی پر اسے خود شرمندہ ہونا چاہیے۔ عالمی برادری لالچ‘ مصلحت‘تجارت اور معیشت کی وجہ سے بھارت کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے۔ 57اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی میں شامل ممالک دولت میں ثانی نہیں رکھتے۔ لیکن وہ بھی خاموش تماشائی ہیں۔ اگر بھارت نے اس بات کا اقرار نہ کیا ہوتا کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے گا، تو پھر بھی یورپی یونین ‘او آئی سی اور سلامتی کونسل کے مستقل ممبران کے پاس کوئی دلیل تھی لیکن 1948ء میں بھارت خود اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا اور وہاں پر خود اس بات کا اعلان کیا کہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوںکے مطابق حل کرے گا۔ وعدے کے باوجود وہ اس سے راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے۔ لہٰذا یہ ممالک بھارت پر اس حوالے سے تو دبائو ڈال سکتے ہیں کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق کشمیر کو حق خود ارادیت دے۔ اخلاقی طور پر بھی ان ممالک کو کشمیریوں کا ساتھ دینا چاہیے ،کیونکہ پون صدی سے کشمیری ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ روس نے ایک بار پھر پاکستانی موقف کی حمایت کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدہ ہے، لہٰذا اس مسئلے کو حل کیے بغیر اس طے میں خوشحالی آ سکتی ہے نہ ہی اب اس مسئلے کو زیادہ دیر تک سرد خانے میں ڈالا جا سکتا ہے۔ پاکستان ‘روس ‘چین ‘ترکی‘ سری لنکا‘ ایران اور عرب ممالک کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ساتھ ملائے کیونکہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، تب تک خطے میں خوشحالی آ سکتی ہے نہ ہی خطرات کے منڈلاتے بادل ختم ہو سکتے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ کی پیشکش کو بھارت کو بھی قبول کرنا چاہیے تاکہ خطے میں غربت ‘بے روز گاری اور افلاس کے خلاف جنگ کر کے عوام کا معیار زندگی بہتر بنایا جا سکے۔