ہم جو مطالبہ کرتے ہیں یا ہم سے کوئی ریاست جو مطالبہ کرتی ہے‘ خارجہ تعلقات اس کی بنیاد بنتے ہیں۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لئے معیشت‘ تجارت اور دفاع کے شعبوں میں پاکستان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ سفارتی آداب ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اپنا مفاد دوسرے کے مفاد کے ساتھ ملا کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے لئے کئی سبق ہیں۔ ایک ایسا ملک جسے امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان نے توڑا آج وہ رضا مند ہے کہ اپنے قومی مفاد کی خاطر دو طرفہ تعلقات کا نیا آغاز کرے۔ پاکستانی خارجہ پالیسی کی تاریخ خطے کے ایسے تنازعات پر مشتمل ہے جو امریکی مفادات کی تکمیل کرتے ہیں‘صرف کشمیر کا تنازع ہے جو خالصتاً پاکستان کا مفاد ہے۔امریکی مفادات کا خیال رکھنے کے دوران پاکستان نے علاقائی تعاون کی ان گنجائشوں اور مواقع کو ہمیشہ ضائع کیا جو خطے میں ہمیں مضبوط کر سکتے تھے۔ ہم بڑی آسانی کے ساتھ بھارت کے پھیلائے جال میں پھنس گئے اور اپنے ہر تعلق کو بھارتی حوالے سے دیکھنے لگے۔صدر کلنٹن بھارت کے دورہ پر گئے تو پاکستان نے ضد پکڑ لی کہ اسے کیوں نظر انداز کیا گیا۔مجبوراً چند گھنٹے پاکستان آئے۔ پھر بش جونیئر کے دور میں ایسا ہوا۔اوبامہ کے دور تک آتے آتے ہم ایسے ضدی بچے مشہور ہو گئے جس کی ضد کو نظر انداز کیا جانے لگتا ہے۔ٹرمپ بھارت آئے‘ ان کی بیٹی اور داماد کئی روز وہاں رہے پاکستان کو کسی نے پوچھا نہ پاکستان امریکہ سے یکساںسلوک کا مطالبہ کر سکا۔ سعودی عرب اور امارات سے تعلقات کی سطح نیچے جانے کی اور وجوہات بھی ہوں گی لیکن ایک وجہ بھارت کے برابر تعلقات کا مطالبہ تھا۔ امریکہ ‘ سعودی عرب‘عرب امارات کے ساتھ تجارت سفارتی تعلقات اور سٹریٹجک تعلقات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارت ہم سے کہیں زیادہ مضبوط تعلقات قائم کر چکا ہے۔ اسے پوسٹ نائن الیون ہماری خارجہ پالیسی میں ظاہر ہوئی پسپائی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان قبل ازیں بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ نیپال اور مالدیپ کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ یہ پالیسی بھارت کا علاقائی کردار محدود رکھنے کے لئے روبہ عمل تھی۔ بھارت کی معاشی و دفاعی ترقی نے اس کا عالمی کردار جیسے جیسے نمایاں کیا یہ ریاستیں چاہتے ہوئے بھی بھارت کے مفاد کو نظر انداز نہ کر سکیں۔ہمارا دوست سری لنکا اس کی بہترین مثال ہے۔ بنگلہ دیش میں بھارت نواز حکومت لانے کے لئے کوششیں کی گئیں۔مودی دوبار بنگلہ دیش گئے اور ان الزامات کو کھلے عام تسلیم کیا کہ پاکستان توڑنے کے لئے بھارت نے کردار ادا کیا۔ کسی ہمسایہ ریاست نے بھارت کے تاریخی طور پر فسادی کردار کی مذمت کی نہ عشروں تک سٹریٹجک اور نان نیٹو اتحادی بنانے والے امریکہ نے ہمدردی کے دو بول بولے۔ یہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ عالمی برادری بھارت کے ساتھ مشروط رکھ کر تعلقات بڑھانے کے حق میں نہیں۔ ہم نے آئندہ بھی ایسی کوشش کی تو اس کا فائدہ نہ ہو گا۔ ہاں پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم ہو جائے تو دنیا ہماری ضد مان سکتی ہے۔ تنازع کشمیر کا حل اپنی مرضی سے کرانے کے لئے بھی ہمیں معاشی اور سیاسی استحکام حاصل کرنا ہو گا۔ ریجنل ڈپلومیسی کا ایک دوسرا ماڈل بعض پاکستانی ماہرین نے مدت ہوئی ترتیب دے رکھا تھا لیکن اس پر عملدرآمد جمود کا شکار رہا۔ دوست ملک چین کا شکریہ جس نے ہمیں سکھایا کہ دفاعی اتحاد اور کمزور ممالک کے ساتھ تعلقات پر زور دے کر ایک مقروض اور کمزور ملک طاقتور نہیں ہو سکتا۔یہ چین ہی ہے جس نے ہمیں روس سے ملایا۔ اب روس سے تعلقات دو طرفہ نہیں بلکہ ایک تکون کی صورت میں آگے بڑھ رہے ہیں جس میں چین کا کردار ایک ضامن جیسا ہے۔ بلا شبہ پاکستان کے افغانستان‘ بھارت‘ مشرق وسطیٰ اور ایران میں مفادات موجود ہیں۔ ان مفادات کا تحفظ براہ راست خود پاکستان کرتا آیا ہے لیکن اب اسے ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ کوئی طاقتور دوست ریاست اس کی مدد کرے۔ روس ان تمام ریاستوں اور علاقوں میں موثر اثرورسوخ رکھتا ہے۔ دفاعی شعبے میں تعاون کی تشریح صرف جنگی ٹیکنالوجی اور آلات نہیں ہوتے‘ سلامتی سے متعلقہ بہت سے معاملات اس کے دائرہ کار میں آ جاتے ہیں۔ مثلاً طالبان‘ مثلاً کشمیر‘ مثلاً ایندھن اور بیلنس آف پاور۔ سرگئی لاروف نے سپوتنک کورونا ویکسین پاکستان کو فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت عالمی مارکیٹ سے ویکسین دستیاب نہیں ہو پا رہی۔ عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ویکسین تیار کرنے والے اور دولتمند ممالک سے اپیل کر چکے ہیں کہ ویکسین کی ذخیرہ اندوزی نہ کریں۔ غریب ممالک کے لیے یہ صورت حال اس لحاظ سے مزید پریشان کن ہے کہ ان کے شہری ویکسین نہ ملنے پر حکومت پر برس رہے ہیں۔ پاکستان نے روس کو پاکستان میں ویکسین تیار کرنے کی تجویز دی ہے جس پر مثبت اشارے ملے ہیں۔ ایسا ہو گیا تو ایک بڑی سہولت حاصل ہو جائے گی۔ پاکستان اور روس نے مشترکہ فوجی مشقوں کے 5رائونڈ مکمل کر لئے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ سر گئی لاروف نے انسداد دہشت گردی کے لئے استعمال آلات پاکستان کو فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، اس ڈیل کا ایک مطلب ہے، اس سے روس نے دنیا کو بتایا ہے کہ وہ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کوششوں کا اعتراف کرتا ہے اور پاکستان کے ساتھ مل کر کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ روس نے سستی گیس فراہم کرنے کا فیصلہ کئی برس پہلے کر لیا تھا۔کراچی سے لاہور تک گیس فراہمی کا منصوبہ جلد مکمل ہونا چاہیے۔ روس نے سٹیل مل میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ روس بھارت کا سر پرست رہا ہے۔ بھارت اب بھی اس سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدتا ہے۔ پاکستان کو اس بار دوستوں کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے جو مواقع مل رہے ہیں ان کو جوڑ جوڑ کر چین‘ روس ‘ایران اور پاکستان پر مشتمل ایک مضبوط بلاک بنانا ہے جس میں ترکی اور آذر بائیجان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔