معزز قارئین!۔ 21 اپریل کو اندرون اور بیرونِ پاکستان ، فرزندانِ پاکستان و دُخترانِ پاکستان نے ، عاشقِ رسول ؐ ، شاعرِ مشرق اور مصّور پاکستان ، علاّمہ محمد اقبال ؒکا 81 واں یوم وِصال منایا۔علاّمہ اقبالؒ نے ملّت اسلامیہ کے ہر قائد (خاص طور پر حکمرانوں ) کو ایک ’’راہنما اصول ‘‘بتاتے ہُوئے فرمایا کہ … قوت ِ عشق سے ، ہر پَست کو بالا کردے! دہر میں ، اسمِ محمدؐ سے ، اُجالا کردے! معزز قارئین!۔ چنانچہ علاّمہ صاحبؒ نے ’’ قوتِ عشق سے ہر پَست کو بالا کرنے اور دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کرنے کے لئے 1930ء میں خطبہ الہٰ آباد میں کہا کہ ’’ برصغیر میں مسلمانوں کے لئے ایک جُدا ریاست ہندوستان کے ساتھ ساتھ اسلام کے لئے بھی انتہائی فائدہ بخش ہے۔ ہندوستان کے لئے یوں کہ اندرونی توازنِ اقتدار کے باعث تحفظ اور امن پیدا ہوگا اور اسلام کے لئے یوں کہ اُسے موقع مِلے کہ وہ عرب ملوکِیت سے نجات پا جائے اور اپنے قانون ، تعلیم و ثقافت کو تحریک دے کر انہیں اپنی اصل رُوح سے قریب لے آئے اور روحِ عصر سے ہم آہنگ کردے! ‘‘۔ خطبۂ الہ آباد کے بعد 28 مئی 1937ء کو علامہ اقبالؒ نے قائداعظمؒ کے نام اپنے ایک خط میں لِکھا کہ ۔ ’’ مَیں یہ جان کر خوش ہُوا ہُوں کہ آپ اُن باتوں کو پیشِ نظر رکھیں گے جو مَیں نے آپ کو ’’آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘کے آئین اور پروگرام سے متعلق لِکھی تھیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ حالات کی سنگینی سے پوری طرح واقف ہیں ۔ جہاں تک اُن کی زد "Muslim India" پر پڑتی ہے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو بالآخر اِس امر کا فیصلہ کرنا پڑے گا کہ، آیا وہ ہندوستانی مسلمانوں کے محض اوپر ؔکے طبقوں کی نمائندہ جماعت ہے یا مسلمان عوام ؔکی جماعت؟۔ جنہوں نے ابھی تک معقول وجوہ کی بنا پر اِس میں دلچسپی نہیں لی۔ ذاتی طور پر میرا ایمان ہے کہ کوئی ایسی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی قِسمت کو بہتر بنانے کا وعدہ نہیں کرتی وہ ہمارے عوام کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی؟ ‘‘۔ معزز قارئین! ۔ قائداعظمؒ کی قیادت میں اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے ، ہندوستانی مسلمانوں کی جدوجہد سے 14 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہُوا۔ قائداعظم ؒ نے گورنر جنرل آف پاکستان کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا۔ قائداعظمؒ نے تو، قیام پاکستان میں اپنے شانہ بشانہ جدوجہد کرنے والی اپنی عظیم بہن ’’ مادرِ ملّت ‘‘ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی ’’مسلم لیگ اور حکومت ‘‘ میں کوئی عہدہ نہیں دِیا اور علامہ اقبالؒ کا ’’ فلسفہ اجتہاد ‘‘ یہ تھا کہ کسی ایک مولویؔ، قاضیؔ، یا مفتی ؔکو نہیں بلکہ مسلمانوں کی منتخب اسمبلی ہی کو اجتہاد کا حق حاصل ہے ‘‘۔ ہندو قوم تو ، قیام پاکستان کی مخالف ہی تھی لیکن، ہندوئوں کی متعصب جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘کے باپو ؔموہن داس کرم چند گاندھی کے چرنوں میں بیٹھنے والی کانگریسی مولویوں کی جماعت ’’ جمعیت عُلمائے ہند‘‘ کے اکابرین نے قیام پاکستان کی مخالفت کی ۔ قیام پاکستان سے چند ماہ قبل لاہور کے علاقہ ’’ پیسہ اخبار‘‘ میں کانگریسی مولوی ، غلام غوث ہزاروی کی صدارت میں منعقدہ جلسہ عام میں ’’مجلس احرار اسلام ‘‘ کے ایک مولوی مظہر علی اظہر المعروف ’’ مولوی اِدھر علی اُدھر‘‘ نے قائداعظم ؒکے خلاف کُفر کا فتویٰ دِیا۔ اُس وقت امیر جمعیت عُلماء اسلام ( فضل اُلرحمن گروپ) کے والد مفتی محمود (مرحوم) سٹیج پر بیٹھے تھے ۔ یہ وہی مولوی مفتی محمود تھے ، کہ جن کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ خُدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے‘‘ ۔ 23 مارچ 1940ء کو قائداعظمؒ کی صدارت میں لاہور کے منٹو پاؔرک ( اب اقبال پارک ) میں ’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے جلسہ عام میں قرارداد پاکستان منظور کی تھی ۔ اُس کے بعد 1946ء کے انتخابات میں ’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ نے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت بن کر اُبھری ۔ قیام پاکستان کے بعد کانگریسی مولویوں کی باقیاتؔ کے ترجمان مفتی محمود صاحب نے 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں یہ مؤقف اختیار کر کے قائداعظمؒ کی ہمشیرہ مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی مخالفت کی تھی کہ ’’ اسلامی ریاست میں عورت کی سربراہیؔ خلافِ اسلام ہے ۔ پھر فضل اُلرحمن صاحب نے (شاید ) اجتہاد ؔکِیا اور اُنہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ دونوں اَدوار میں اُن کی حمایت کی ۔ اِس سے قبل 1993ء کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے سنڈے میگزین میں اپنے انٹرویو میں فضل اُلرحمن صاحب نے کہا تھا کہ ’’ قائداعظمؒ کوئی پیغمبر نہیں تھے کہ اُن پر تنقید نہیں کی جاسکتی‘‘۔پھر 28 اپریل 1997ء کو قومی اخبارات میں فضل اُلرحمن صاحب کا یہ بیان بھی شائع ہُوا تھا کہ ’’ پاکستان ایک خوبصورت نام ہے، لیکن طاغوتی (شیطانی) نظام کے باعث مجھے اِس نام سے گھِن آتی ہے۔ حیرت ہے کہ اِسی ’’طاغوتی نظام‘‘ کے تحت مولانا مفتی محمود (مرحوم) صوبہ سرحد کے وزیرِ اعلیٰ رہے اور مولانا فضل الرحمن نے بھی اِس ’’طاغوتی نظام‘‘ کا حِصّہ بن کر، ہر دور میں سیاسی ، سماجی اور معاشی ترقی کی۔ قیام پاکستان کی تحریک میں مولانا مودودی کی ’’جماعت اسلامی ‘‘ کی کوئی خاص پوزیشن نہیں تھی لیکن، اُس نے مخالفت کی ۔ مولانا صاحب نے تو، پاکستان کو ’’ نا پاکستان‘‘ بھی قرار دِیا تھا ۔ 2002ء میں ’’مختلف اُلمسالک ‘‘مذہبی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل ( ایم ۔ ایم ۔ اے) قائم کِیا۔ صِرف ایک مثال عرض کرتا ہُوں کہ 6 اپریل 2007ء کو اسلام آباد کی لال مسجد کے ملازم (خطیب) مولوی عبداُلعزیز نے خُود ’’امیر اُلمومنین ‘‘ کا لقب اختیار کر کے اور اپنے چھوٹے بھائی عبداُلرشید غازی کو نائب امیر مقرر کر کے ملک بھر میں شریعت نافذ کردِی تھی۔ 3 جولائی 2007ء کو صدر جنرل پرویز مشرف کی ہدایت پر پاک فوج کو لال مسجد اور اُس سے ملحقہ جامعہ حفصّہ میں چھپے ہُوئے دہشت گرد وںکے خلاف "Sunrise Operation" کرنا پڑا جس میں 103ء لوگ مارے گئے ۔ پاک فوج کے 11 افسران و اہلکار بھی شہید ہُوئے۔ 12 جولائی 2007ء کو ’’متحدہ مجلس عمل ‘‘ کے سربراہ / امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد (مرحوم) سیکرٹری جنرل فضل اُلرحمن صاحب اور اُن کی جمعیت کے سیکرٹری عبداُلغفور حیدری صاحب نے اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری اور امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے افسروں اور جوانوں کو شہیدؔ نہیں کہا جاسکتا‘‘۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ’’ جب بھی پاکستان میںعام انتخابات ہُوئے تو، مذہبی جماعتوں (خاص طور پر تحریکِ پاکستان کی مخالف جماعتوں ) کو بھاری مینڈیٹ نہیں مل سکا۔ اُن کے قائدین کسی نہ کسی حکمران کو اپنا ’’ امیر‘‘ تسلیم کر کے اُس کی حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ دراصل عاشقان و عقیدت مندانِ علاّمہ اقبالؒ پوری دُنیا میں پھیلے ہُوئے ہیں ۔ 21 اپریل کو لاہور میں ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی کے بسائے ہُوئے ’’ ڈیرے‘‘ (ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان) میں ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ اور ’’ تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کے اشتراک سے یوم اقبالؒ منایا گیا۔ ٹرسٹ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید خُود مجھے دعوت دینے کے لئے آئے تھے لیکن، مَیں نقاہت ؔکے باعث شرکت نہیں کرسکا ۔ مجھے اُس وقت جنابِ مجید نظامی اور فرزند ِ اقبال ؒ، جسٹس (ر) جاوید اقبال بہت یاد آئے ۔ اگست 2012ء میں ’’نوائے وقت‘‘ میں میری کالم نویسی کا تیسرا دَور شروع ہُوا تو، مَیں جب بھی ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان ‘‘ میں منعقدہ کسی تقریب سے پہلے یا اختتام پر سیّد شاہد رشید کے کمرے میں گیا تو، جنابِ مجید نظامی اپنے (چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے ) کمرے کے بجائے سیّد شاہد رشید کے کمرے میں ( اُن کی کُرسی پر نہیں بلکہ ) الگ کُرسی پر رونق افروز ہوتے اور اُن کے ساتھ ہی فرزندِ اقبال ؒبھی ۔ بہرحال علاّمہ اقبالؒ ،اُن کے افکار و نظریات و تصانیف کا خصوصی رنگ اور اسلوب ۔’’ اقبالیات‘‘ اور ارضِ پاکستان کے حُسن و جمال اور قائداعظمؒ کے اصول و اقدار ’’جمالیات ‘‘(Aesthatics) کا فیض ابھی تک جاری ہے ۔جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں بھی ’’کانگریسی مولویت ‘‘ کی باقیات ؔکا تو کباڑا ہی ہوگیا ؟۔ آگے آگے دیکھئے ، ہوتا ہے کیا؟