دس نمبر ڈائیوو بس واپڈا ٹائون سے لاہور ریلوے سٹیشن تک چلا کرتی تھی۔ ہمیشہ سفاری سوٹ میں ملبوسروف طاہر پہلے سٹاپ سے سوار ہوتے، عموماً سب سے آخر والی سیٹوں پر بیٹھتے۔ میں کالج روڈ سے سوار ہوتا تو ان کے ساتھ جگہ مل جاتی۔ آشنائی والا تعلق کئی برسوں سے تھا۔ اس سفر کے دوران علمی و صحافتی موضوعات پر بات ہوتی۔ہم بات کرتے کہ لکھنے والے سطحیت کا شکار ہو رہے ہیں، ہم اس بات پر دکھی ہوتے کہ سماج میں تلخی گھولنے والے زیادہ ہیں،محبت کے مبلغ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ میں ان کے محبوب رہنما کی سیاست کا ناقد ہوں ،مجھے معلوم تھا کہ ان کے سامنے نواز شریف کے لئے سخت جملے ان کا دل دکھاتے ہیں۔ وہ ان دنوں اسی اخبار میں کالم لکھ رہے تھے، جہاں میں انچارج نمائندگان تھا۔ دفتر آتے تو بلند آہنگ میں سب سے سلام دعا کرتے۔ ہفتے میں تین چار بار تو لازمی ہم ایک ساتھ سوا گھنٹے کا سفر کرتے۔ مزاج سادہ اور بے تکلف تھا۔میں نے کبھی نہ پوچھا کہ وہ کالم کے علاوہ کیا کرتے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس دوران وہ ڈی جی پی آر اور پاکستان ریلوے میں میڈیا کے حوالے سے ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔پہلے کئی قومی اخبارات ، جرائد اور میڈیا اداروں کے ساتھ وابستہ رہے اور نامور شخصیات سے سیکھا۔ ایک بار پی ٹی وی کے حالات حاضرہ پر پروگرام میں ہم جمع تھے۔ مسلم لیگی حکومت تھی۔ رانا ارشد صوبائی پارلیمانی سیکرٹری بھی شریک گفتگو تھے۔ میں نے پروگرام کے دوران جن خیالات کا اظہار کیا وہ مسلم لیگ ن کی حکومت پر تنقید کے ذیل میں آتے تھے۔ میں جانتا تھا کہ وہ نواز شریف کے بہت قریب ہیں۔ جدہ کے سرور پیلس میں قیام کے دنوں وہ بھی نواز شریف خاندان کے ساتھ تھے۔ میری تنقید منطقی تھی۔ پروگرام کے بعد انہوں نے میری گفتگو کی تحسین کی۔انہوں نے پروڈیوسر صائمہ کو کہا کہ اشرف شریف کو بلاتے رہا کریں۔ ہر وقت سیاسی اختلاف کے حامل سیاستدانوں اور صحافیوں کو لڑتے دیکھنے والوں کے لیے یہ بہت حوصلہ افزا بات تھی کہ اتنی بھیڑ میں ایک شخص ابھی موجود تھا جو مکالمے اور شائستگی پر یقین رکھتا تھا۔ ڈیڑھ سال پہلے ایک کاروبار کیا۔ انجینئر ٹائون کے پاس نرسری فارم بنایا۔ پودے پھول اور پیڑوں سے میری محبت آنکھ کھولنے کے وقت سے ہے۔ میں نے بھائیوں کی مدد سے اس شوق کو کاروبار کی شکل دیدی۔ کوہاٹ میں پاک فوج کا 250ایکڑ پر پھیلاگولف کورس بنایا۔ بارہ ہزار درخت لگائے، آب شاریں اور جھیلیںبنائیں، جھیلوں کے کنارے سجائے۔ اس کام کی تصاویر فیس بک پر لوڈ کیں تو ان کا فون آ گیا۔ اشرف بھائی کسی روز اپنی نرسری دکھائیں۔ وہ سب کو بھائی کہہ کر ہی بلایا کرتے تھے ، ہم پروگرام بنا رہے تھے کہ کورونا کی آفت آ گئی۔ کئی بار طے کرتے کہ نرسری چلتے ہیں پھر کوئی مصروفیت آڑے آ جاتی اور یہ نشست ملتوی ہو جاتی۔ کسی تقریب میں ملاقات ہو جاتی۔ فون پر میرے کالموں کی لائنز پڑھ کر سراہتے۔ کہا کرتے کہ آپ کے ادارئیے اور کالم پڑھتا ہوں ، میں کہتا زیادہ نہ پڑھیں مسلم لیگ ن کی پالیسیوں پر تنقید آپ کو دکھی کر سکتی ہے، وہ ہنس دیتے۔ اختلافی نکات پر زیادہ بات نہ کرتے ایک آدھ جملے میں اپنا مؤقف بیان کر کے ادھر ادھر کی گفتگو کر لیتے۔ یہ ان کا سلیقہ تھا۔ ہم جو مکالمے کے حامی ہیں ان کی برداشت اور تحمل کو مثالی سمجھتے۔ پچھلے ماہ میرے سکول کے دوست کی بیگم کا برین ہیمرج ہو گیا۔ وہ غریب آدمی ضرورت سے زیادہ بھولا بھی ہے۔ جیب کی طرف دیکھنے کی بجائے اس نے بیوی کی جان کا خیال کیا اور گھر کے قریب واقع اتفاق ہسپتال لے گیا۔ دوسرے دن اس کا فون آ گیا۔ بیگم کی حالت بتائی کہ کوما میں ہے۔ ڈاکٹروں نے وینٹی لیٹر پر لگا دیا ہے۔ وہ بتا رہا تھا کہ دو دن میں 60ہزار کے قریب خرچ ہو گئے۔ پھر رونے لگا میں نے ایک صاحب حیثیت مشترکہ دوست کو بیرون ملک فون کر کے ماجرا بیان کیا۔ اللہ اسے جزائے خیر دے اس نے جو رقم بھیجی وہ میں دوست کو ہسپتال دے آیا۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ بیگم کو جنرل ہسپتال یا میو ہسپتال شفٹ کروا لو۔ ڈاکٹروں سے بات کی تو انہوں نے مریضہ کی حالت کو نازک بتا کر شفٹ کرنے کی مخالفت کر دی۔ ساتھی نے یاد دلایا کہ رؤف طاہر آپ کے اچھے دوست ہیں ان سے کیوں نہیں کہتے، وہ شریف خاندان کے کسی فرد کو کہہ کر رعایت کروا دیں گے۔ میں نے فون کیا تو نہایت درد مندی کے ساتھ تفصیل سنی پھر کہا کہ ڈاکٹر عدنان میاں نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ یہاں ہوتے تو معاملہ فوراً حل ہو سکتا تھا۔ پھر کہنے لگے میں کوشش کرتا ہوں۔ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد فون آیا کہ مریضہ کے کوائف بتائیں۔ میں نے وارڈ، بیڈ اور نام بتا دیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر فون آیا اور بتایا کہ اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ گھر جا چکے ہیں۔ کل مریضہ کے شوہر کو ان کے پاس بھیج دیں مناسب رعایت ہو جائے گی۔ یہ الگ بات کہ اگلے دن مریضہ انتقال کر گئیں لیکن رئوف طاہر نے اس دوران میرے دل پر ایک نیا نقش کر دیا تھا۔ پیر کے روز دفتر آ کر بیٹھا ہی تھا کہ سعید آسی صاحب کے ذریعے رئوف طاہر کی وفات کی خبر ملی۔ دماغ میں ان سے ملاقاتوں کی پوری فلم چند لمحوں میں چل گئی۔ مغرب کے بعد ان کی نماز جنازہ تھی۔ کیا عمدہ انسان تھے جو تلخی میں گھلے ماحول میں سے امید، تحمل اور خوش مزاجی کا رنگ نکال لایا کرتے تھے۔ کتنے لوگ ہمارے سامنے دنیا سے رخصت ہوئے مگر کسی صحافی کی موت پر جس قدر دکھ کا اظہار اس بار دیکھنے میں آیا اس کی مثال کم کم ملتی ہے۔اللہ ان کی منزلیں آسان فرمائے۔