گڈریا جیسا افسانہ، من چلے کا سودا جیسا ڈرامہ سیریل اور تلقین شاہ جیسا کردار، مدتوں لکھنے کے ساتھ ساتھ اسے لا سلکی ریڈیائی لہروں پر زندہ رکھنے والے اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ ''جو لوگ اللہ، پیغمبرِ خدا اور اسلام کو برا کہنا چاہتے ہیں، لیکن جرأت نہیں رکھتے تو وہ مولوی کو برا کہہ کر اپنی خواہش پوری کرتے ہیں''۔ ایسے کردار آپ کو سیکولر، لبرل دانشوروں میں ملیں گے، ملحد اساتذہ کرام میں نظر آئیں گے یا پھراگر آپ شرابیوں کی کسی محفل میں جا نکلیں، ہیروئن، چرس، بھنگ اور گانجا استعمال کرنے والوں کے ڈیرے پر پہنچ جائیں تو آپ کو مولوی سے نفرت، اس کا تمسخر، اور اس کی تضحیک کرنے والے بے شمار مل جائیں گے۔ نشے والے تو اپنی ذہنی حالت اور بدمستی میں ایسا کرتے ہیں لیکن سیکولر دانشور، ادیب، اساتذہ اور کالم نگار اپنے اندر موجود ''سائنسی اور مشاہداتی'' علم کے غرور میں ڈوبے ہوئے نشے میں مولوی کو حقیر جان کر ایسا کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے صدیوں سے تفننِ طبع اور دین سے محبت کرنے والوں کی دل آزاری کے لئے بے شمار فقرے تراش رکھے ہیں جن میں یہ لوگ وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ کرتے جاتے ہیں۔ آپ ان فقروں کی تہہ میں جائیں تو آپ کو کچھ بھی نہیں ملے گا لیکن بظاہر یہ فقرے، اسلام، مولوی، علماء اور دین سے وابستہ افراد کی تضحیک کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ مثلا ان فقروں میں سے ایک فقرہ ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ ''جب ہلاکو نے بغداد پر حملہ کیا تو علماء اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ کوّا حلال ہے یا حرام''۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے، بالکل ویسے ہی کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ''جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو لاہور کے پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھے فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ طوطا ''ط'' سے ہوتا ہے یا ''ت'' سے اور واقعتاً یہ بحث اس دور میں عروج پر بھی تھی۔ لیکن ان دونوں شخصیات اور پاک ٹی ہاؤس کے ماحول کا پاک بھارت جنگ سے کیا تعلق۔ ایسے لاتعداد لایعنی فقرے گھڑے گئے اور انہیں زبان زد عام کیا گیا۔ اللہ کی ذات، یومِ حشر، عذاب و ثواب، حوروغلمان، جنت ودوزخ پر تواتر کے ساتھ لطیفے بنائے جاتے ہیں اور ان سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ اس طرح کے حقارت آمیز اور تمسخر اڑانے والے فقروں کی بازگشت سے گونجتا ہوا ایک اور فقرہ اور سوال گذشتہ دنوں جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو میں بھی ایک موصوف نے داغ دیا اور پھر اس سے خود بھی لطف لینے اور دوسروں کے حظ اٹھانے کے لئے کالم میں بھی درج کر دیا۔ جامعہ نعیمیہ کے سادہ لوح اور صاف دل علماء سے پوچھا گیا کہ ''آپ کسی مولوی صاحب کے کہنے پر نماز جنازہ میں جوتیاں اتار دیتے ہیں لیکن آپ لوگوں نے گاڑیاں غلط پارک کی ہوئی تھیں''۔ میں اس فقرے کی نیت اور گھڑت میں چھپا ہوا ان کا مقصود سمجھتا ہوں لیکن تہمت نہیں لگاؤں گا کہ وہ کیا چاہتے تھے۔ لیکن آیئے اس شاطرانہ فقرہ بازی کا غور سے جائزہ لیتے ہیں۔ دین کی دی گئی عبادت میں جو اہتمام ہے، اس کے لیے گزشتہ چودہ سو سال سے کسی سائن بورڈ، میڈیا کی اشتہاراتی مہم، یہاں تک کہ مولویوں کے مسلسل واعظ کی بھی ضرورت کبھی نہیں پڑی۔ صف باندھنا، جوتے اتارنا، ٹوپی سر پر رکھنا، پھٹے پرانے کپڑوں والے مزدور کا کلف لگے کپڑوں والے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا، ان سب پر عام آدمی اس لیے عمل کرتا ہے، کیونکہ ان تمام معاملات میں اس کا ''رول ماڈل'' مولوی بھی ویسے ہی کرتا ہے۔ وہ شیخ القرآن اور شیخ الحدیث کیوں نہ ہو، دیر سے آئے گا تو نماز میں دیر سے آنے والوں کی آخری صف میں کھڑا ہوگا۔ میں نے اپنی ساٹھ سالہ زندگی میں ہزاروں جمعہ کے خطبات سنے ہوں گے لیکن شاید کبھی کسی مولوی نے صفوں کی اہمیت یا دیگر آداب نماز پرتفصیلی گفتگو کی ہو، لیکن ''رول ماڈل'' مولوی نے پوری امت کو اس طرح سے ایک ترتیب، نظم و ضبط اور ڈسپلن کی تربیت دی ہے کہ حج کے موقع پر 25 لاکھ افراد ایک امام کی آواز پر صرف چند سیکنڈ میں ایسی حسن ِ ترتیب سے صفیں بناتے ہیں کہ دنیا کی کسی ملٹری اکیڈمی میں بھی اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہوتا۔ آپ دنیا کے کسی چھوٹے سے کنسرٹ، سیاسی جلسے، عوامی ہجوم کو اتنے مختصر وقت میں اس ترتیب سے منظم کر کے دکھائیں۔۔۔ نا ممکن ہے۔ اللہ نے ایک سمت متعین کر دی اور پھر چودہ سو سال میں کسی کو بتانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی، کوئی سزا متعین نہ کی گئی، کوئی کوڑا نہ برسا، ہر کسی نے ایک دوسرے کو دیکھ کر ایسی حسنِ ترتیب کا مظاہرہ کیا کہ دنیا آج بھی حیرت میں گم ہے۔ دوسری جانب مسئلہ یہ ہے کہ ریاستی قوانین میں ہم سب کے رول ماڈل میاں محمد بخش کے بقول '' دنیا دار کمینے ہیں''۔ مولوی اس پورے معاشرے کا صرف ایک فیصد سے بھی کم ہونگے لیکن غلط پارکنگ کرنیوالے، ٹریفک کا اشارہ توڑنے والے اور ریاست کے قانون کو پاؤں تلے روندنے والے تو واضح اکثریت میں ہیں۔ ریاستی قوانین کا رول ماڈل وہ آئی جی پولیس اور ایس پی ٹریفک ہے جو نو پارکنگ کے سامنے گاڑی پارک کر کے بتاتا ہے کہ وہ کتنا طاقتور ہے۔ جس کے پاس جتنی بڑی گاڑی ہوگی اور اگر اس پر ممبر اسمبلی یا ڈپٹی کمشنر لکھا ہو گا، تیر یا ترازو کے نشان والی پلیٹ ہوگی تو وہ تیز رفتاری میں سب کو روندتا ہوا نکل جائے گا۔ مولوی بیچارہ تو ہر ٹریفک کے اشارے پر موجود چیک پوسٹوں پر تلاشی دیتا ہوا نظر آئیگا اور ان عظیم رول ماڈلوں کو حیرت سے دیکھ رہا ہوگا جو اس سیکولر لبرل مغربی معاشرے کے ہیرو ہیں۔ حالت یہ ہے کہ اگر کوئی ادیب شاعر بھی کسی اعلی عہدے پر پہنچ جائے تو اس کی اکڑ اور کروفر سنبھالی نہیں جاتی، وہ اپنی پہچان کا فائدہ اٹھا کر غلط جگہ پارکنگ کریگا۔ کوئی مسلمان روزہ اس لئے وقت سے پہلے نہیں کھولتا کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ اس کے تمام رول ماڈل بھی ایسا کرتے ہیں۔ کسی ایک شخص نے رسول اکرم ﷺ سے لے کر مفتی راغب نعیمی تک کبھی اپنے لئے کوئی استثناء طلب نہیں کیا۔ لیکن اسکے برعکس جب وہ ریاست کے قانون پر عملدرآمد دیکھتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ وزیراعظم، صدر، وزیراعلی، گورنر، جج، جرنیل، چیف سیکرٹری، آئی جی کیلئے ٹریفک کے اشارے بند کر دیے جاتے ہیں تاکہ وہ لوگ تیزی سے گزر جائیں۔ ایسا کبھی کسی مریض کے لیے نہیں ہوتا۔ ریاستی قوانین میں ان کا رول ماڈل عوام کے حاکم اور ہیرو ہیں۔ ایک اوردانشور صاحب یہ فقرہ عموما دوہراتے پھرتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے، لیکن مسجدوں کے غسل خانے گندے ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ کیا رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان صرف مولوی پر لاگو ہوتا ہے۔ اگر یہ سب پر لاگو ہوتا ہے توپھر میں ان عظیم دانشوروں کو اخباروں اور ٹی وی چینلوں کے باتھ روم میں لے جاتا ہوں، سیکریٹریٹ کے باتھ روم دکھاتا ہوں، تمام پلازوں اور پبلک مقامات کے غسل خانوں کا دورہ کرواتا ہوں، میرا دعوی ہے کہ ان سب باتھ روموں سے مساجد کے باتھ روم زیادہ صاف ہونگے۔ اس کے علاوہ کسی مسجد میں یہ نہیں لکھا ہوگا یہ ٹوائلٹ افسران کے لئے اور یہ عوام اور اسٹاف کیلئے۔ مفتی راغب نعیمی صاحب نے بھی خوب کہا کہ آخرت کی جواب دہی کی وجہ سے لوگ دین کے معاملے میں محتاط رہتے ہیں۔ میرا یہ دعوی ٰ اس سے بڑھ کر ہے کہ آخرت کے تصور کے بغیردنیا کے کسی بھی معاشرے میں جرم وسزا کا نظام مکمل طور پر نافذ ہی نہیں ہوسکتا۔ ایک شخص رات کو پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہے، اسکا پڑوسی بھوک سے خودکشی کرلیتا ہے، کیا دنیا کا کوئی قانون اسے سزا دے گا۔ کوئی اپنے ماں باپ کو اولڈ ایج ہوم چھوڑ آتا ہے، کون ہے جو ایسی اولاد کو ہتھکڑی لگائے۔ ایک شخص سڑک پر ایکسیڈنٹ میں زخمی شخص کو ہسپتال نہیں لے جاتا،کون ہے جو اسے اس جرم میں گرفتار کریگا۔ لیکن میرا اللہ روز حشر ان سب جرائم کی وجہ سے ان افراد کو کٹہرے میں کھڑا کریگا۔یہ آخرت کی جوابدہی کا احساس ہے جو معاشرے میں حسن پیدا کرتا ہے۔ جس دن نماز میں با ادب کھڑے ہو نیوالا خوف ریاستی قوانین میں بھی نافذ ہوگیا، اس دن دنیا ابوبکر صدیقؓ، عمر ابن خطابؓ، عثمان غنیؓ اور علی المرتضی ؓجیسے رول ماڈل ایک بار پھر پیدا کرلے گی۔ لیکن اگر دنیا کی بدبودار مادیت کے پیچھے بھاگنے والے مغرور لوگ ہی رول ماڈل ہوں گے تو پھر صرف مولوی کا تمسخر اڑا کرہی خوش ہوا جاسکتا ہے۔