سیاسی رہنماؤں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئیے کہ وہ بھلے وزیر اعظم بننے کے لیے بے تاب ہوں مگر لوگ انہیں اپنی زندگی کے حوالے سے رول ماڈل سمجھنے لگتے ہیں۔ جب بھی کسی سیاسی لیڈر کی نجی زندگی پر انگلی اٹھتی ہے تو وہ فوری طور پریہ جواب دیتے ہیں کہ وہ ان کی نجی زندگی کا معاملہ ہے۔ اس کے بعد ایک بحث چھڑ جاتی ہے کہ کیا لیڈر کی نجی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اخلاقی طور پر معیوب ہے؟ ہم کو اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب برطانیہ کی عالمی شہرت یافتہ شہزادی لیڈی ڈیانا کی اپنے شوہر سے دوری ہونے لگی تھی اور وہ عرب شخص دودی الفہد کے قریب آنے لگی تھی تب برطانیہ کا میڈیا ان کے پیچھے پڑگیا تھا اور لیڈی ڈیانا کا انتقال بھی جس کار حادثے میں ہوا اس کا سبب وہ فوٹوگرافرز تھے جنہیں ’’پاپارازی‘‘ فوٹو گرافرز کہا جاتا ہے۔ مشہور شخصیات کا پیچھا کرنے والے ان کی زندگی کی جوسیسٹوریز اور تصاویر کو منظر عام پر لانے والے صحافیوں اور فوٹوگرافرز کو کسی حکومت اور کسی عدالت نے لیڈی ڈیانا کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کے بعد بھی نہیں روکا۔ کل جو کچھ لیڈی ڈیانا کے ساتھ ہو رہا تھا آج اس کی بہو کے ساتھ ہو رہا ہے۔ لوگوں کی دلچسبی میڈیا کو مجبور کردیتی ہے۔ ہم اخلاقی ضابطوں کے اسیر ہونے کے باوجود بھی ان چیزوں کے بارے میں بے بس ہوجاتے ہیں جن چیزوں کی طرف ہمارے دھیان کا دروزاہ کھلتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عالمی سطح کے سیاسی لیڈروں کی زندگیوں پر کتابیں نہ لکھی جاتیں اور نہ ان پر فلمیں بنائی جاتیں۔ یہ ایک اصول ہے کہ جو بھی ہجوم کے لیے کشش رکھتا ہے یا جو ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنی ذاتی زندگی پر انگلی اٹھانے پر اعتراض کرنے کا حق ہار جاتا ہے۔ مشہور شخصیات کی باتیں ان کے گھر کی چار دیواری پھلانگ پر باہر آجاتی ہیں۔ ان پر کوئی قانونی قدغن نہیں لگا سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ میڈیا کی زینت بننے والی بات سچ ہوتی ہے یا جھوٹی!؟عالمی سطح پر ہالی ووڈ یا بالی ووڈ کے اداکار اپنے اسکینڈلز کی وجہ سے میڈیا میں شہرت پاتے ہیں اور ہم نے یہ بھی دیکھا ہے جب کسی اداکار یا اداکارہ کی شہرت کا گراف نیچے گرنے لگتا ہے تب وہ میڈیا میں کوریج حاصل کرنے کے لیے ایسی چالیں بھی چلتے ہیں جن کے لیے بعد میں انہیں معافی مانگنی پڑتی ہے۔ میں نے حالیہ دنوں کے دوراں بھارت کی شوبز پر چھائے ہوئے اداکار سلمان خان کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے سنا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسی فلموں میں کام نہیں کرتے جن فلموں کی وجہ نوجوان نسل کو غلط پیغام ملے۔ وہ اپنی ایک فلم کا مثال دیتے ہوئے کہنے لگے کہ اس فلم کے حوالے سے میں نے انٹرویوز میں کہا تھا کہ اس کردار کے بالوں کا اسٹائل اور بولنے کا انداز تو کاپی کیا جا سکتا ہے مگر اس کردار کی طرح بننے یعنی اس کردار کو حقیقی زندگی میں اپنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ جب ایک اداکار بھی قسم کی باتیں کرتا ہے اور وہ اپنے آپ کو معاشرے کے حوالے سے پابند سمجھتا ہے تو ہم ایک سیاسی رہنما کو کس طرح نظرانداز کر سکتے ہیں؟ سیاستدان تو سیدھے طریقے سے سماج کو تبدیل کرنے اور انہیں اپنے اصولوں اورآدرشوں پر چلانے کا کام کرتے ہیں وہ یہ کہہ کر اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے میری فلاں چیز سیاسی ہے اور فلاں چیز نجی ہے۔ حالانکہ کسی بھی انساں کی نجی اور پروفیشنل زندگی میں ایک حد فاصل ہوا کرتی ہے مگر وہ لکیر کسی لیڈرکی شہرت کی وجہ سے بہت موہوم ہو جاتی ہے۔ وہ لیڈر چاہے یا نہ چاہیں مگر میڈیا پر ان کو ملنے والی کوریج کی وجہ سے لوگ نہ صرف ان پر رشک کرتے ہیں بلکہ ان کی چال ڈھال اور ان کا اٹھنا بیٹھنا یا ان کے کھانا پینا اور خاص طور پر ان کا پہننا کاپی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے کمپنیاں کوشش کرتی ہیں کہ وہ مشہور لوگوں کو مفت میں اپنی مصنوعات دیں تا کہ ان کو دیکھ کر لوگ بھی ان مصنوعات کی طرف راغب ہوں۔ اس طرح سے سیاسی لیڈران ٹرینڈ سیٹرز ہوتے ہیں۔ ان کا عمل ایک لکیر بن جاتا ہے۔ اس لکیر پر چلنے میں لوگ بڑے خوش ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمارے لیڈر اگر وہ تمباکو نوشی کرتے بھی ہیں تو اسٹیج یا کیمرا کے سامنے ایسا نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کی وجہ سے لوگوں اور خاص طور پر نوجوان نسل میں تمباکو نوشی کا رجحان بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ سیاسی ہنماؤں کے حوالے سے کی گئی اس لمبی بحث کو اگر ہم منطقی انجام پر پہنچانے کی کوشش کریں گے تو ہمارے ذہن میں اپنے ملک کے اس لیڈروں کے بارے میں سوالات اٹھنے لگیں گے۔ جن پر ایک طرف تو کرپشن کے الزامات ہیں اور دوسری طرف وہ اپنے لباس اور اپنی رہن سہن پر اتنی دولت لٹاتے ہیں کہ لوگوں میں کسی نہ کسی طرح اتنی دولت حاصل کرنے اور اس کو اسی طرح لٹانے کے خیالات آنا ایک فطری عمل ہے۔ اس عمل کو کیسی بیان سے روکا نہیں جا سکتا۔ جب عرصہ دراز کے بعد بینظیر بھٹو کے گھر میں خوشیوں کی شہنائی بجی تھی آصف زرداری اپنی بڑی بیٹی آصف کی شادی کروانے کے لیے مہمانوں کو مدعو کرنے کے لیے مصروف ہوئے تو ان دنوں میڈیا کا سارا دھیان بلاول ہاؤس کی طرف تھا۔ شادی کے دوراں کس مہمان نے تحفے میں کیا دیا اور دلہن نے اس موقعے پر کون سا لباس تن زیب کیا تھا؟ میڈیا کا فوکس ان باتوں پر رہا۔ کچھ حلقوں میں آصفہ کی شادی اس بحث کا موضوع بھی بنی کہ غریبوں کی باتیں کرنے والی پارٹی کے لیڈرز کے گھر میں اتنی مہنگی شادی نہیں ہونی چاہئیے۔ اس پر کچھ لوگوں کا خیال الگ بھی تھا مگر جب مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے بیٹے اور میاں نواز شریف کے نواسے کی شادی ہوئی تو وہ تقریب کتنے دنوں تلک چلتی رہی اور اس تقریب میں کتنا خرچ ہوا؟ اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ یہ بات جلن کی نہیں ہے۔ ہم تو صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ جو لوگ تقریبات میں پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ جو لوگ ایک دن کے لیے لاکھوں کا لباس پہن کر دولت کی نمائش کرتے ہیں وہ لوگ معاشرے میں صرف ایک غلط روایت متعارف نہیں کرتے بلکہ غریبوں کے ارمانوں سے بھی کھیلتے ہیں۔ ایک طرف ایک پارٹی ملک میں جاری مہنگائی کے خلاف مہم چلا رہی ہے اور دوسری طرف اس پارٹی کی قیادت جب ایک شادی میں دولت کے انبار لٹاتی ہے اور میڈیا پر ان کی تصاویر اس طرح نظر آتی ہیں جیسے وہ لیڈرز نہ بلکہ اداکار ہوں تو معاشرے میں جو پیغام جاتا ہے اس پیغام کو سیاسی شعور رکھنے والا مثبت کیسے کہے گا؟ ہماری ملکی سیاست کے زوال کا ایک بنیادی سبب یہ تضاد ہے۔ عوام جن افراد کو اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں؛ وہ جب فیشن انڈسٹری کی ماڈلز بن کر سامنے آئیں تو پھر سیاست کے دامن میں دکھاوے اور جھوٹ کے علاوہ باقی کیا بچتا ہے۔