پھول کھلنے لگے یادوں کے پس غرفہ چشم بزم یاراں ہوئی آراستہ سبحان اللہ کامیابی کو علاقہ ہی نہیں عشق کے ساتھ ہوئے ناکام سند یافتہ سبحان اللہ لو جی سمارٹ لاک ڈائون بھی ختم ہوا سب کچھ بحال ہو گیا۔ خاص طور پر پارکوں کے کھلنے کی ہمیں زیادہ خوشی ہے کہ سبزہ پیڑ پودے اور پھول ہمارا مسئلہ ہیں تعلیمی ادارے فی الحال بند رہیں گے کہ تعلیم ہمارا اتنا مسئلہ بھی نہیں مگر یہ پارک بھی تو بچوں کے ساتھ ہی اچھے لگتے ہیں۔ ہائے ہائے پھول کی مہکار اور رنگ کو دیکھ کر بچوں کی شرارتی آنکھوں کی چمک اور حیرت اک جہان ہی تو ہے اور پھر تتلی کے تعاقب میں دوڑتا بچہ اور بچے کے پیچھے بھاگتی اس کی ماں وہ مناظر ہیں کہ جیسے کیٹس نے گریشن ارن پر دیکھے تھے۔ جو بھی ہے مجھے زندگی کا بحال ہونا اچھا لگا اب شہروں کی زندگی اور سیر گاہوں کی رونق واپس آ جائے گی۔ یہ کم نہیں کہ ہمیں دوبارہ پرندوں کے ساتھ ہمکلام ہونے کا موقع ملے گا۔ میں تو کچھ زیادہ ہی رومانٹک ہو گیا اور میں نے تیر کی غزل مہدی حسن سے سنی۔ چلیے آپ بھی اس غزل کے دو شعہروں سے لطف اٹھائیے جو اکثر مجھے ہانٹ کرتے ہیں: وہ ہوا خواہ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح پہلے میں جاتا تھا اور باد صبا میرے بعد میرے معزز قارئین!آپ یہ نہ سمجھئے کہ میں پارکوں اور سیر گاہوں کی باتیں کر کے زندگی سے فرار حاصل کر رہا ہوں۔ میرے محترم! آپ ہی بتائیے کہ اتنے طویل لاک ڈائون کے بعد میں آپ کے سامنے مہنگائی کا رونا رونے لگ جائوں۔ حالانکہ میں ابھی ڈبل روٹی لے کر آیا تو پتہ چلا کہ دس روپے قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے اب 110روپے کی ملے گی۔جب خان صاحب آئے تو یہ 70روپے کی تھی۔ غریب آدمی کا تو سمجھو ناشتہ ہی خراب ہو گیا۔ کل میں نے چینی خریدی تو وہ 95روپے کلو ملی۔ میرا تو منہ کڑوا ہو گیا۔ یار آخر یہ کیا ہو رہا۔ اب تو جہانگیر ترین بھی نہیں اس کا بیٹا بھی نہیں اور رپورٹ بھی پیش ہو چکی۔ منافع خوروں کو نتھ بھی ڈالی جا چکی۔آٹا چینی کی قیمتیں مگر بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں۔ عثمان بزدار نے آٹے چینی کے نرخوں کو خود ساختہ قرار دے دیا ہے۔ میرے خیال میں یہ اضافہ بے ساختہ ہے۔ شاید کوئی ساختہ اضافہ بھی ہوتا ہو گا۔ خدا کے لئے اب یہ بڑھکیں اور دعوے بند کر دیں۔ کچھ دن آپ بیان دینا بند کر دیں تاکہ لوگ اپنے زخم سہلا لیں۔آپ نے تو غریبوں کو جیتے جی مار دیا ہے۔ مہنگائی روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔ یعنی ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔چلیے چھوڑیے دل کے پھپھولے پھوڑنے کا کیا فائدہ۔ فائدہ عرض ہنر خاک نہیں۔میر کی غزل سنی تو ساتھ ہی داغ کی غزل تھی ہائے ہائے کیا خالص اردو کا شاعر تھا وہ پھر مہدی حسن کی آواز: عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں لیکن اس غزل کا مقطع تو کمال کا ہے کہ زیست سے تنگ اے داغ تو جیتے کیوں ہو۔ جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں۔وہی کہ لوگ مہنگائی پر شور تو مچاتے ہیں کہ ہائے مارے گئے اور پھر مرتے کہتے بھی نہیں۔ دو چار خودکشیاں اور بس، مقصد تو پورا نہ ہوا۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ مقابلہ کریں مہنگائی کا۔ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔ قوموں پہ مشکل وقت آتے ہیں مگر ایسا بھی نہیں کہ جیسا آیا ہے ڈاکو چور باہر بھاگ گئے اور کچھ قید ہوئے تو نئے مانوس سے چور ڈاکو جیرا بلیڈ ثابت ہوئے۔ عوام کی جیب ایسی کٹی کہ بس۔کڑکیاں تو چوہوں کو پکڑنے کے لئے لگائی جاتی ہیں عوام کو ایسے ایسے انداز میں جکڑا گیا کہ انہیں اسحق ڈار یاد آنے لگا زخم وہ دل پہ لگے ہیں کہ دکھانے کے نہیں۔ ابھی تو زلفی بخاری نے کہا ہے کہ پاکستان کے آنے والے آٹھ سال بہت اچھے ہونگے ہمار دل تو دہل کر رہ گیا۔ اللہ نہ کرے کہ انہیں ہم پر مسلط رکھا جائے یہ تو بہت تشویشناک بات ہے اگلے آٹھ سال کیا آنے والا سارا وقت ہی اچھا ہو ۔ان تلوںمیں تو تیل نہیں بلکہ یہ تو تل بھی نہیں تھے تیل تو بعد کی بات ہے۔ ہائے ہائے ذہن سے بھوسہ برآمد ہو تو کتنا عجیب لگتا ہے: بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا فی الحال تو ہمیں سمارٹ لاک ڈائون کے ختم ہونے کی خوشی ہے مگر پتہ نہیں کہ یہاں بھی کوئی دام پنہاں نہ ہو۔ پھر شعر یاد آ گیا: پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے لوگ طعنے دیتے ہیں کہ وہ بھگتیں جنہوں نے خان کو سپورٹ کیا تھا۔ خیر بھگت تو سب ہی رہے ہیں مگر مجھے میاں بیوی کا واقعہ یاد ضرور آ گیا کہ بیوی لڑائی کے دوران میاں سے کہنے لگی تم خود ہی میری طرف دوڑے آئے تھے اب کہتے ہو کہاں پھنس گیا ہوں۔ میاں آہ بھر کر کہنے لگا ٹھیک ہی کہتی ہو۔پنجرہ تو چوہے کی طرف نہیں جاتا۔ بہرحال یہاں مقابل میں شیر کا ذکر بھی خطرے سے خالی نہیں۔ بس اچھے دنوں کی آس ہے کہ ہمارے پاس اور کوئی چوائس بھی تو نہیں۔ جمہوریت کا انتقال پھر بھی بہتر ہے کہ اس میں کچھ کچھ ہنسنے کے مقام بھی میسر آ جاتے ہیں وگرنہ ہر گھڑی آرڈر آرڈر یا پھر دائیں مڑ اور بائیں مڑ بھی تو خوشگوار نہیں آخر میں سبحانی آکاش کا شعر: ہزار بار قسم کھائی گھر پہ رہنے کی ہزار بار قسم توڑ کر نکل آئے تو پیارے قارئین!سب کچھ بھول کر آزادی کا مزہ لیں۔ کچھ نہیں ہے تو تازہ ہوا کھائیں اور اپے غصہ کو پی جائیں۔ موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں۔