عدل،انصاف اور مساوات کوبنیادی اصولوں تسلیم کئے بغیر انسانیت کی تعمیرممکن نہیں۔سرمائے، مذہب،رنگ، نسل اور جنسی تفریق کی بنیاد پر کھڑی دنیا میں جس طرح اقلیتوں کودبایاجارہاہے،مختلف بہانے تراش کرانہیں موت کے گھاٹ اتاراجارہاہے ،بچ جانے والوں کا استحصال کیاجارہا،ان کے ساتھ ظلم ، ناانصافی اور تشدد کیاجارہاہے ۔انسانی حقوق کے لئے آواز غداری قرار پا رہی ہے۔ مذہب،رنگ و نسل اور جنس کی بنیاد پر تفریق کی دیوار قائم ہے۔یہ اکیسویں صدی کے ماتھے پربہت بڑے دھبے ہیں جس کے باعث انسانی تاریخ کاہرورق اورہرباب آلودہ ہے۔کرہ ارض کے شرق وغرب میں جوجنگل راج نافذہے اس سے صاف دکھائی دے رہاہے کہ دنیاکے تمام حکمرانوں ایک ہی چھت تلے بیٹھ کر دنیاکی مظلوم قوموں کوروندنے پرایک ہی طرح اورایک ہی طرزکے منصوبے ڈئزائن کرنے کے بعدان پر عمل کررہے ہیں۔ ایک زمانے میں خود ظلم کا شکار ہونے والی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو اب میانمار کی اقلیت روہنگیا کے قتلِ عام کے الزامات کا دفاع کرتے دیکھنا کسی حیران کن ستم ظریفی سے کم نہیں ہے۔گیمبیاکے دائرکردہ مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے عالمی عدالت انصاف نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کانوٹس لیتے ہوئے23جنوری 2020ء بروزجمعرات کو میانمار کو حکم دیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی روک تھام کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے۔عالمی عدالت انصاف کے 17رکنی بینچ کا یہ متفقہ فیصلہ جج عبدالقوی احمد یوسف نے پڑھ کر سنایا۔عدالت انصاف نے قرار دیا ہے کہ میانمار نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق 1948ء کے کنونشن کے آرٹیکل دو کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ایسے اقدامات اٹھائے جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی مخصوص نسل یا گروہ کے لوگوں کا قتل نہ ہو اور کسی گروہ کے افراد کو ذہنی یا جسمانی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ واضح رہے کہ عالمی عدالت انصاف نے یہ فیصلہ گیمبیا کی جانب سے دائر کردہ اس درخواست پر دیا ہے جس میں استدعا کی گئی تھی کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کو روکنے، ان کو محفوظ بنانے اور ماضی میں ان کے خلاف کیے گئے اقدامات کے شواہد کو محفوظ رکھنے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے جائیں۔ جنوری 2020ء کے تیسرے ہفتے میں اس حوالے سے عالمی عدالت انصاف میں ہوئی کارروائی کے دوران میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے 17رکنی عدالتی بینج سے استدعا کی تھی کہ اس مقدمہ کو اس فورم پر نہ سنا جائے۔ عدالت کے روبرو انھوں نے یہ اقرار کیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ غیر متناسب فوجی قوت کے استعمال کے نتیجے میں شاید چند سویلین ہلاک ہوئے ہوں مگر یہ اقدامات نسل کشی کے زمرے میں نہیں آتے۔لیکن عدالت نے اپنے ان تازہ ریمارکس میں کہا ہے کہ عدالت انصاف روہنگیا مسلمانوں کی مبینہ نسل کشی کے خلاف میانمار پر لگائے جانے والے الزامات پر مبنی مقدمہ سننے کی مجاز ہے۔مغربی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک گیمبیا نے اس حوالے سے نومبر2019 ء میں اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت سے رجوع کیا تھااورروہنگیامسلمانوں کے حوالے سے ابتدائی طورپرہنگامی ابتدائی اقدامات اٹھانے کی استدعا کی گئی ہے۔مبصرین کاخیال ہے کہ اس کیس کا مکمل فیصلہ آنے میں وقت لگ سکتاہے ۔ یاد رہے کہ2017ء میں میانمار میں فوجی کریک ڈان کے بعد سات لاکھ اورتیس ہزارسے زائد روہنگیامسلمان میانمار سے نکلنے پر مجبور ہو گئے تھے۔جس پراقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ میانمار میں فوجی مہم کا آغاز’’مسلمانوں کی نسل کشی کی نیت‘‘سے کیا گیا تھا۔ یہ تمام مہاجرین اب ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں قائم عارضی پناہ گزیں کیمپوں میں نہایت مشکل زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔ گمبیا کے وزیر قانون ابوبکر تمباڈو وہ شخص ہیں جن کی کوششوں کی بدولت میانمار کی رہنما اور نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو ہیگ میں واقع عالمی عدالت انصاف میں پیش ہو کر یہ وضاحت کرنی پڑی تھی کہ ان کی حکومت ملک کی روہنگیا اقلیت کے قتل عام میں ملوث نہیں تھی۔ابوبکر روانڈا پر بنائے جانے والے اقوام متحدہ کے ٹرائیبیونل کے سابقہ پراسیکیوٹر ہیں۔ روانڈا کی نسل کشی میں آٹھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ابوبکر مغربی افریقہ کے چھوٹے سے ملک گیمبیا سے نکل کر بنگلہ دیش کے ساحلی شہر کاکس بازار میں قائم پناہ گزین کیمپ پہنچے جہاں ان پر بہت سے راز افشا ہوئے۔بچ جانے والے روہنگیا افراد کی کہانیاں سن کر ان کے مطابق انھیں ایسا محسوس ہوا جیسے انسانی لاشوں کا تعفن میانمار کی سرحد پار کر کے بنگلہ دیش میں داخل ہو رہا ہے۔ان پناہ گزینوں نے ابوبکرکے پاس اپنے بیانات ریکارڈکراوئے جن میں انہوں نے بتایاکہ میانمارکی فوج اورانتہا پسند عوام روہنگین مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندی کے تحت حملے کر رہے تھے، ان کے مکانات کو نذرِ آتش کرتے، ماں کی گودوں سے ان کے بچے چھین کر بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک دیتے، مردوں کو اکٹھا کر قتل کرتے، عورتوں کا گینگ ریپ کرنے کے علاوہ ہر طرح کی جنسی زیادتیوں کا شکار بناتے۔ روہنگیا کی حالت زار نے ابوبکرکے ذہن میں روانڈا میں1994ء میں ہونے والی نسل کشی کی یاد تازہ کر دی جیساکہ عرض کیاجاچکاہے کہ جس میں آٹھ لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ابوبکرکاکہناہے کہ مجھے یہ حالات سننے میں بالکل ویسے لگتے ہیں جیسے روانڈا میں ٹوٹسی قبیلے کے افراد کو درپیش تھے۔ان کاکہناہے کہ روانڈاہی کی طرزپرمیانمار میں بھی نسل کشی کی گئی ہے۔ جس طرح غیر انسانی عمل، ان کو مختلف ناموں سے پکارنا، اس میں نسل کشی کی تمام بنیادی نشانیاں تھیں۔ میں نے یہ سوچا کہ یہ میانمار کے حکام کی جانب سے روہنگیا گروہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی ایک کوشش تھی۔ابوبکرکاکہناہے کہ ذاتی طور پر میں نے جو کچھ دیکھا اور پیشہ وارانہ حیثیت میں میں نے سوچا کہ میانمار کی اس کے اعمال پر باز پرس ہونی چاہیے اور ایسا کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ اس معاملے کو عالمی عدالتِ انصاف میں لے جایا جائے۔اس سے قبل میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے عالمی عدالت انصاف میں کہا تھا کہ میانمار میں ہوئی تفتیش سے یہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اس معاملے میں کسی بھی نوعیت کی بین الاقوامی دخل اندازی نہیں ہونی چاہیے۔ (جاری)