روس کے صدر ولادی میر پیوٹن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مابین گزشتہ ہفتے دہلی میں ملاقات ہوئی ہے۔ روسی صدر پیوٹن کا حالیہ دورہ ہندوستان، روس اور ہندوستان کی قیادت کے درمیان روس،ہندوستان اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے تحت سالانہ سربراہی اجلاس کے سلسلے میں تھا۔ گزشتہ سال COVID-19 کی وجہ سے میٹنگ نہیں ہوسکی تھی اور یہ 21 واں روس،انڈیا سربراہی اِجلاس تھا جِس کا مقصد روس اور ہندوستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینا تھا جسے "انڈیا،روس خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹریٹجک پارٹنرشپ" کہا جاتا ہے۔ روس بھارت اسٹریٹجک پارٹنرشپ میں حالیہ اختلافات کا سلسلہ خاص طور پر ایشیا میں نئی جغرافیائی سیاسی حرکیات کی وجہ سے سامنے آیا ہے۔ بھارت نے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار قائم کر رکھے ہیں۔ چین اور امریکہ نئی سرد جنگ کی لپیٹ میں آنے والے ہیں اور اِس ممکنہ ٹکراؤ نے چین اور روس کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ اِسی طرح چین اور بھارت کے درمیان سرحدی مسائل پر تنازعہ ہے اور 1962 کی چین۔ بھارت جنگ کے بعد سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ یہ بات کافی دلچسپ ہے کہ روس اور ہندوستان دونوں کو دوسرے کے بہترین دوست کے ساتھ مسائل کا سامنا ہے۔ روس بھارت تعلقات کے لیے حالیہ چیلنج اپنے سابقہ رومانس کو زندہ رکھنا ہے کیونکہ اب دہلی اور ماسکو زیادہ پرکشش شراکت داروں کے ساتھ منسلک ہوگئے ہیں۔ دہلی کا واشنگٹن کے ساتھ پیار کا رشتہ پہلے اِتنا شدید نہیں تھا جتنا کہ آج ہے، جبکہ ماسکو کی بیجنگ کے ساتھ اپنائیت پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان ممکنہ سرد جنگ روس اور بھارت کے باہمی تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دے گی۔ روس اور بھارت کے درمیان گزشتہ سات دہائیوں پر محیط مضبوط باہمی تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے، تاہم ابھرتی ہوئی جغرافیائی سیاسی حقیقتوں کے تناظر میں یہ جمود کا شکار ہیں۔ جبکہ صدر پیوٹن کا حالیہ دورہ، اگرچہ مختصر دورانیے کا تھا، ہندوستان اور روس کے مابین دو طرفہ تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش ہے۔ تاہم، دونوں ملکوں کے لیے پرانے تعلقات کی ماضی کی روح کو برقرار رکھنا کافی مشکل دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ہندوستان امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک کی قریبی صفوں میں شامل ہو گیا ہے جبکہ روس کو امریکی قیادت والی مغربی دنیا سے مسلسل تناؤ اور مزاحمت کا سامنا ہے۔ دو طرفہ تعلقات کے فریم ورک کو مضبوط بنانے کے لیے، ایک نئے فارمیٹ، دونوں اطراف کے وزرائے خارجہ اور دفاع کے درمیان 2+2 وزارتی میٹنگ بھی ہوئی ہے۔ روایتی طور پر روس اور ہندوستان کے درمیان متنوع تعلقات رہے ہیں لیکن اب دفاعی تعاون، موجودہ تعلقات کا مرکزی اور غالب جزو ہے۔ دونوں ممالک دفاعی تعاون کو بڑھا رہے ہیں۔ سربراہی اجلاس سے پہلے، بھارت نے روس کے ساتھ اپنے مشترکہ منصوبے کے ذریعے ہندوستان میں پانچ لاکھ سے زیادہ رائفلوں کی تیاری کے لئے طویل عرصے سے زیر التواء AK203 کلاشنکوف رائفلوں کے سودے کی منظوری دی ہے۔دونوں ممالک نے فوجی ٹیکنالوجی میں تعاون کے لیے 2021 سے 2031 تک 10 سالہ معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق روس نے S-400 لانگ رینج ایئر ڈیفنس سسٹمز کی پہلی ڈیلیوری بھیج دی ہے، جس کے لیے 2018 میں معاہدہ ہوا تھا، اور بھارت امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے امکان کے باوجود اس سے پیچھے نہ ہٹنے کے لیے پرعزم ہے۔ اس کے علاوہ تیل اور توانائی سے لے کر اِنٹیلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق اور ثقافت سمیت 28 معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔ روس اور بھارت کے درمیان پرجوش تعلقات میں اِیک اہم رکاوٹ باہمی تجارت کا کم حجم ہے جو کہ 10 بلین ڈالر سالانہ سے کم ہے اور دونوں ممالک اِسے 2025 تک 30 بلین ڈالر سالانہ تک بڑھانا چاہتے ہیں جبکہ دو طرفہ سرمایہ کاری 50 بلین ڈالر سالانہ تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ تاہم، روس،انڈیا سمٹ مکمل طور پر کامیاب تصور نہیں کی جا رہی ہے اور بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق، کچھ معاہدے جن کی توقع کی جا رہی تھی ان کا اعلان نہیں کیا گیا جبکہ دونوں فریق باہمی لاجسٹکس سپورٹ ایگریمنٹ (RELOS) پر بھی متفق نہیں ہو سکے اور ہندوستانی سیکرٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا کے مطابق کچھ زیر التوا مسائل کی وجہ سے اِس معاہدے کو فی الحال موخر کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ روس اور بھارت کے مابین خوشگوار باہمی تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے اور دونوں فریقین کے مابین باہمی تعلقات، مضبوط دفاعی تعاون پر مشتمل رہے ہیں جبکہ بھارت کو اسلحہ فروخت کرنے والے ملکوں میں روس سرِ فہرست رہا ہے لیکن امریکہ اور روس کے مابین سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد، با لخصوص امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئی اِقتصادی مسابقت اور سیاسی تناؤ کے تناظر میں روس اور ہندوستان کے باہمی تعلقات میں بھی ماضی جیسی گرم جوشی نہیں رہی کیونکہ اب یہ بہت حد تک ماسکو،واشنگٹن،بیجنگ سہ فریقی تعلقات کے اتار چڑھاؤ پر اِنحصار کریں گے۔ امریکہ کے دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے ایک طرف روس اور چین ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ بھی چین کے گِرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے اِنڈیا کے ساتھ سٹریٹیجک پارٹنرشپ قائم کرچکا ہے اور اِنڈو پیسیفک ریجن میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بھی ہندوستان کو کواڈ ( QUAD) نامی نئے اِتحاد میں اپنے ساتھ مِلا چکا ہے.جبکہ روس، چین کے ساتھ حالیہ قریبی تعلقات کو اس بھارت سے جس کے امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات ہیں اور جنوبی ایشیا سمیت اِنڈو پیسیفک ریجن میں مفادات مشترک ہوگئے ہیں ،کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتا۔ سرد جنگ کی تلخ یادوں سے نکل کر خطے میں رونما ہونے والی نئی پیش قدمیوں کی وجہ سے پاکستان اور روس اپنے کے مابین تعلقات کثیرالجہتی نوعیت اِختیار کرچکے ہیں جن میں دونوں ملکوں کے فوجی دستوں کی مشترکہ مشقوں میں شمولیت اور توانائی کے شعبے میں روس کے تعاون سے پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن کے نام سے کراچی سے لاہور تک گیارہ سو کلو میٹر طویل گیس پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ شامل ہیں۔ پاکستان اور چین کے مابین گہری دوستی کی وجہ سے روس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات میں بھی توازن قائم رکھے۔