ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا جو کہ بہت مقبول ہوا اور دیکھا جائے تو ہر شے روٹی ، کپڑا، مکان کے گرد گھومتی ہے۔ وفاقی بجٹ پر حکومت اور اپوزیشن میں لفظی گولہ باری کا سلسلہ جاری تھا کہ آج پنجاب کا صوبائی بجٹ بھی پیش ہو گیا ہے۔ اس بجٹ میں وسیب کیلئے الگ رقم مختص کی گئی ہے اور کچھ منصوبوں کا اعلان بھی ہوا ہے مگر یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ہر مرتبہ یہی ہوتا آرہا ہے۔ گزشتہ بجٹ میں سول سیکرٹریٹ کیلئے 4 ارب روپے مختص ہوئے اور یہ بھی اعلان ہوا کہ اب ایک ایک پائی وسیب پر خرچ ہو گی مگر اُن 4 ارب میں سے ایک پائی بھی خرچ نہ ہوئی۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک دوسرے کو دوش دینے کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے اختیارات زرداری ہائوس استعمال کرتا ہے۔سندھ کے وزیر اطلاعات سید ناصر شاہ نے الزام لگایا ہے کہ وفاق سندھ کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ یہ سیاستدانوں کی لڑائیاں ہیں اصل حقیقت یہ ہے کہ عوام کی بہتری کیلئے کوئی نہیں سوچتا۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ وفاقی اور صوبائی بجٹ کو ترقیاتی بجٹ کا نام دیا گیا تھا اور کھربوں روپے مختص ہوئے تھے مگر اعلان شدہ رقم خرچ نہ ہوئی۔ موجودہ بجٹ میں بھی بہت سے اعلانات سامنے آئے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ سرائیکی وسیب جو کہ زرعی ریجن ہے اور یہاں کی کپاس زر مبادلہ کے حصول کیلئے بہت اہم تھی کی پیداوار موجودہ تین سال میں بہت نیچے چلی گئی ہے اور گزشتہ سال ہونیوالی کمی پچاس فیصد تھی۔ اس سے پہلے کپاس کی پیداوار 13 ملین بیلز تھی جو کم ہو کر 6.5 ملین بیلز رہ گئی ہے۔ اس کی واضح وجہ وسیب کا استحصال ہے۔ اس بجٹ میں بھی زراعت کیلئے بہت کم رکھی گئی ہے۔ وسیب کے کاشتکار کو جعلی زرعی ادویات اور مہنگی کھادوں نے برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ پانی کی کمی وسیب کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وسیب جو کہ سپت سندھو یعنی سات دریائوں کی سرزمین تھا آج پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے حالانکہ اگر وسیب کے کاشتکار کو مکمل سہولتیں دی جائیں تو نہ صرف یہ کہ پاکستان بلکہ دوسرے ملکوں کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ تحریک انصاف کو بھرپور مینڈیٹ وسیب سے حاصل ہوا ہے۔ مرکز اور صوبے میں حکومت وسیب کے مینڈیٹ کی وجہ سے ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کا یہ تیسرا بجٹ ہے۔ ابھی تک وسیب کو کچھ نہیں ملا۔ میں نے وسیب کو محروم خطہ لکھا ، پسماندہ نہیں لکھا کہ وسیب قطعی طور پر پسماندہ نہیں ہے۔ یہ زرخیز ترین خطہ ہے جو 70 فیصد غذائی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ افغانستان سمیت ہمسایہ ملکوں کو بھی اناج مہیا کرتا ہے۔ اس لئے کسی بھی لحاظ سے سرائیکی خطے کو پسماندہ نہیں کہا جا سکتا۔ وسیب کے ساتھ سابقہ حکمران جو سلوک کرتے رہے موجودہ حکمران ان سے دو ہاتھ آگے نظر آتے ہیں ۔ وسیب سے بہت دھوکے ہوئے۔ تحریک انصاف نے بھی تبدیلی کا نعرہ لگایا اور واضح طور پر وسیب کی محرومی ختم کرنے اور صوبے بنانے کا وعدہ کیا ۔ لوگوں نے اسی تبدیلی کی امید پر ووٹ دیئے اور تحریک انصاف کو اب لوگوں کے سب خواب چکنا چور ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ وسیب کے لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور قیام پاکستان کیلئے وسیب کی خدمات سب سے زیادہ ہیں۔ ملتان وسیب کا بزرگ شہر ہے کم از کم ملتان میں پاکستان کا سب سے بڑا اور تاریخی میوزیم بننا چاہئے کہ اس سے پاکستان کا نام روشن ہو گا۔ بار دیگر کہوں گا کہ وسیب پر توجہ کی ضرورت ہے کہ وسیب کی تاریخ اتنی قدیم ہے کہ جتنی انسان کی اپنی تاریخ‘ یہ وہ خطہ ہے جہاں انسان نے پہلی مرتبہ اپنے دو پاؤں پر چلنا سیکھا ۔ اس خطے کو مذاہب کا مولد اور تہذیبوں کے گہوارا ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں سب سے پہلے شہر اور شہریت پیدا ہوئی ‘ جہاں انسانوں نے جنگلوں میں شہر بسائے اور پھر شہروں سے سلطنتیں وجود میں آئیں ۔ آج بھی وسیب کا مرکزی اور زندہ شہر ملتان و اوچ اپنی قدامت کی گواہی دے رہے ہیں اور ملتان کو یہ شرف حاصل ہے کہ موہنجو دڑو اور ہڑپہ سے بھی پہلے اس کا شمار اعلیٰ اور ترقی یافتہ شہروں میں ہوتا رہا ہے اور ملتان کا یہ بھی اعزاز ہے کہ ہزار ہا برس سے یہ دنیا کے ان چند شہروں میں ہے جو کسی نہ کسی شکل میں مسلسل آباد چلے آ رہے ہیں۔ اسی خطے میں سب سے پہلے صنعت و حرفت وجود میں آئی ، کاشتکاری کو وجود میں لایا گیا ۔ یہ خطہ مختلف ادوار میں سلطنتوں اور ریاستوں پر مشتمل رہا ہے۔ اگر زیادہ دور نہ جائیں اور مغلیہ عہد کو بھی دیکھ لیں تو اس وقت ہندوستان کے آٹھ صوبوں میں صوبہ ملتان سب سے بڑا اور وسیع صوبہ تھا ۔ ابوالفضل کی کتاب آئین اکبری میں صوبہ ملتان کی حدود ایک طرف ٹھٹھہ ‘ دوسری طرف کیچ مکران ‘ کشمیر و اجمیر تک لکھی ہوئی ہیں ۔ وسیب کا سب سے بڑا جرم اس کی زرخیزی رہی ہے۔ وسیب کے لوگوں کی اپنی تہذیب ‘ ثقافت ‘ زبان اور اپنی تاریخ ہے ۔ وسیب کے لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور پاکستان سے ماسوا اپنے حق اور کچھ نہیں مانگتے اور ان کا مطالبہ اتنا ہے کہ جس طرح دوسرے صوبے ان کی شناخت کے مطابق موجود ہیں ، اسی طرح وسیب کے لوگوں کو بھی ان کا حق دیا جائے ۔ وہ نہ تو برتر صوبہ مانگتے ہیں اور نہ کمتر صوبہ قبول کریں گے ۔ آج حکمران تبدیلی کے نام پر برسر اقتدار آئے ہیں اور انہوں نے صوبہ بنانے کا تحریری وعدہ بھی دے رکھا ہے، اس لئے ہم حکمرانوں کی خدمت میں چارٹر آف ڈیمانڈ دیتے آ رہے ہیں کہ وہ صوبے کے لئے فوری اقدامات کریں اور صوبہ قائم ہونے تک وسیب کے جو مسائل ہیں انہیں حل کریں ۔