مجھے فواد چودھری یا ان کے کیلنڈر سے کوئی غرض نہیں۔نہ میرا مقدمہ اس کیلنڈر کو درست مان لینے کے اصرار پر مبنی ہے۔ میرا مقدمہ تو سادہ سا ہے ۔ رویت ہلال کمیٹی کی ضرورت کیاہے ؟ چاند دیکھنے میں دینی علم کا عمل دخل کتنا ہے ؟ چاند دیکھنے کے عمل کا علمائے دین کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟وہ جو علم فلکیات کا ذرہ برابر علم نہیں رکھتے ، اجلاس میں بیٹھ کر کیا کرتے ہیں؟چاند کی رویت کا حتمی اعلان کرنے کے لیے علمائے دین کا علم کس حد تک کام آتا ہے ؟ آتا بھی ہے یا نہیں؟ان سوالات کا جواب دینے کے لیے اس ادارے کی ذمہ داری اور کام کو سمجھئے۔ رویت ہلال کمیٹی ایک ایسا ادارہ ہے جو محکمہ موسمیات اور سپارکو سے ہدایات لے کر چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کرتا ہے اور بس۔ ہاں کہنے کو یہ لوگوں سے چاند کی شہادتیں وصول کرنے کی رسم بھی نبھاتا ہے مگر اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی۔ اگر محکمہ موسمیات کہہ دے کہ آج چاندکی پیدائش نہیں ہوئی اور یہ نظر نہیں آ سکتا تو لوگوں کی شہادتیں جھوٹی قرار دے کر رد کر دی جاتی ہیں۔ کوئی مفتیان کرام سے پوچھے کہ کس بنیاد پر سینکڑوں شہادتوں کو جھوٹا قرار دے کر رد کیاگیا تو جواب ملتا ہے کہ ہمیں ماہرین علم فلکیات نے بتایا ہے کہ چاند کا دکھائی دینا ممکن ہی نہیں تھالہذا چاند دیکھنے کا دعویٰ کرنے والے جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ تماشا ہم برس ہا برس سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ مفتی شہاب الدین پوپلزئی شہادتوں کے رد کیے جانے اور خود کو جھوٹا قرار دیے جانے پر برسوں سے ناراض ہیں، اب تو ایسا لگتا ہے ضد پر اتر آئے ہیں۔ یہ کالم لکھنے سے پہلے میں نے ایک مفتی صاحب سے بات کی جو سالہا سال تک رویت ہلال کمیٹی کا حصہ رہے ۔ میں نے ان سے پوچھا شہادت کو کس بنیاد پررد کیا جاتا ہے ،کہنے لگے محکمہ موسمیات اور ماہرین فلکیات کی بریفنگ کی روشنی میں۔ میںنے پوچھا کبھی محکمہ موسمیات کی ہدایات کے برعکس محض شہادتوں کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا ہے، جواب ملا کبھی نہیں۔ میں نے کچھ مذید سوال کیے جس سے اندازہ ہوا کہ شہادتیں آنے سے بہت پہلے ماہرین کی بریفنگ کی روشنی میں رویت ہلال کمیٹی فیصلہ کر چکی ہوتی ہے کہ اسے کیا اعلان کرنا ہے ، بعد میں شہادتیں موصول ہونے یا نہ ہونے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے ، اعلان بحرحال وہی کیا جاتا ہے جس کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے۔ ایسے میں رویت ہلال کمیٹی کے وجود کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ یا اگر ضرورت ہے بھی تو اس میں علمائے کرام کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے ؟رمضان کے با برکت مہینے میں یوں بھی مذہبی فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں ان کی بہت مصروفیت ہوتی ہے، ان کا قیمتی وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ کیوں نہ یہ کام ماہرین علم فلکیات اور محکمہ موسمیات کے سپرد کر دیا جائے۔ ماہرین فلکیات اپنے طور پر ملک بھر سے شہادتیں اکٹھی کرنے کا اہتمام کریں ، اپنے علم کی بنیاد پر شہادتیں قبول یا رد کرنے کا فیصلہ کریں جیسا کہ پہلے ہوتا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ماہرین اپنی تحقیق اور اس کے نتیجے میں ہونے والا فیصلہ مفتی صاحب کی زبان سے سنواتے ہیں۔ دوسری صورت میں وہ خود اس کا اعلان کریں گے۔ یوں فیصلہ تو وہی رہے گا اور مفتیان کرام کو زحمت بھی نہ ہو گی ۔ فواد چودھری کی پریس کانفرنس کے بعد علمائے کرام کی جانب سے ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فواد چودھری نے دھیمے لفظوں میں رویت کو ایک طرح سے غیر ضروری قرار دیاتھاجبکہ علماء کا استدلال یہ تھا کہ رویت ایک شرعی تقاضا ہے جس کے بغیر کوئی بھی فیصلہ غیر شرعی ہو گا۔ میری فواد چودھری صاحب کو تجویز یہ ہے کہ رویت کو لازمی جزو کے طور پر قبول کرتے ہوئے اگر یہ ذمہ داری سائنسدانوں کے سپرد کرنے کا مطالبہ کر دیں تو شاید زیادہ مناسب ہو گا۔ایسی صورت میں فواد چودھری کامطالبہ بھی پورا ہو جائے گا اور رویت کی شرعی ضرورت بھی ۔ یعنی محکمہ موسمیات یا سپارکو کے دفتر میں ایک ڈیسک قائم ہو جس میں لوگ فون کر کے اپنی شہادت ریکارڈ کروائیں اور متعلقہ محکمے کے دفتر سے پریس ریلیز کے ذریعے حتمی اعلان کر دیا جائے۔ یہ اعلان ریاست کا اعلان تصور ہو گا کیونکہ یہ ریاست کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کی طرف سے کیا گیا ہو گا ، آپ چاہیں تو اسے رویت ہلال کمیٹی کا ہی نام دے دیں ، کوئی اعتراض نہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کے قیام سے پہلے منائی جانے والی عیدیں کیا غیر شرعی طور پر منائی گئیں یا تب رکھے جانے والے روزے شرف قبولیت حاصل نہ کر پائے ہوں گے؟ نظام تو پہلے بھی چل رہا تھا مگر رویت ہلال کمیٹی اس لیے بنائی گئی تھی کہ پورے ملک میں مذہبی یگانگت دکھائی دے ، ایک ساتھ روزہ رکھا جائے ، ایک ساتھ عید منائی جائے ، اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مقصد نہیں تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا مفتیان کرام اور علمائے دین پر مبنی یہ کمیٹی اپنا مقصد حاصل کر پائی ؟ کیا مذہبی ہم آہنگی اور یگانگت پیدا کر پائی ؟ کیا ایک ساتھ روزہ رکھنے اور عید منانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا؟ کیا اسے بنائے جانے کا مقصد حاصل کیا جا سکا؟ اگر ان سوالوں کا جواب ’’نہیں‘‘ ہے تو پھر اس پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت تو بحرحال ہے ۔ اگر احتساب کا نظام ہر ادارے میں موجود ہے تو اس ادارے سے بھی اس کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا جانا چاہیے ؟ سوال ہونا چاہیے کہ علمائے کرام یگانگت پیدا کیوں نہ کر سکے۔باقی سب سوال چھوڑے بس ایک ہی بات کا مفتی منیب الرحمن جواب دے دیں کہ وہ پاکستان کے مسلمانوں کی شہادتیں کس بنیاد پر رد کر تے ہیں؟ اگر وہ اس بات کا تسلی بخش جواب دے دیں تو رویت ہلال کمیٹی کو اسی شکل میں برقرار رکھیں ، جواب نہ دے پائیں تو رویت ہلال کمیٹی میں علمائے کرام کی موجودگی پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔