رویت ہلا ل یا چاند دیکھنے کے مسئلے کو ہمارے ہاں اتنا اختلافی بنادیاگیا ہے کہ بدقسمتی سے بہتوں کواب شرعی احکامات اور نصوص پربھی انگشت نمائی کا موقع مل گیاہے۔رویت ہلال کے معاملے میںہر سال رمضان المبارک اور عیدالفطرکے موقع پر قوم تقسیم کے عمل سے دوچارہوکررہ جاتی ہے ۔ دودو عیدیں منانے کی رَیت تو اس ملک میں 1958 ء سے چل پڑی بلکہ بسا اوقات ملک میں تین عیدیں منائی گئیں ہیں جس کی پہلی مثال ہمیں1961ء میں مرحوم ایوب خان صاحب کی حکومت میں ملتی ہے ۔کہا جاتاہے کہ ا یوب حکومت نے سرکاری طور پر 18مارچ1961ء کو عیدمنانے کا اعلان کیا تو مولانا احتشام الحق تھانوی ؒ اور کئی دوسرے جید علماء نے سرکاری اعلان سے اختلاف کرکے اسے رد کردیا۔یوں اسی سال ایک ہی ملک میں یکے بعد دیگرے تین عیدیں منائی گئیں۔ پہلی عیدسترہ مارچ کو پشاورمیں منائی گئی ،دوسری اٹھارہ مارچ کو ایوب حکومت کی طرف سے سرکاری عید تھی جبکہ انیس مارچ کو ایک اور عید منائی گئی جو ملک کی اکثریت نے وقت کے جید علمائے کرام کے کہنے پر منائی تھی ۔قوم کوان اختلافات سے نجات دلانے کی خاطرمرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء کو رویت ہلال کے نام سے ایک مرکزی اور چار زونل کمیٹیاں بنادیںجس میںدین کے ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کو شامل کیاگیا۔اس کمیٹی کی تشکیل کو اب پینتالیس سال بیت گئے ہیں۔ہرمہینے خصوصاً رمضان اور عیدین کے موقع پر اس کے باقاعدہ اجلاس بھی منعقد ہوتے ہیں،حکومتی خزانے سے اس کے اوپر پیسہ بھی خرچ ہورہاہے لیکن یہ قوم کو پھر بھی عید ِ واحد پر جمع کرانے میں ناکام نظرآتی ہے ۔ حالیہ چند سالوں کے دوران تو اس مسئلے کی وجہ سے لسانیت اور علاقیت کو بھی شہہ ملی ہے جسے ایک اور بدقسمتی کہاجاسکتاہے۔ اگرچہ رویت ہلال کامسئلہ ہمارے اکثر علماء کے نزدیک مطلق مذہبی جبکہ عصری علوم والوں کے ہاںیہ ایک سائنسی مسئلہ ہے لیکن میرے مطابق (باقی مسلم دنیا سے قطع نظر) پاکستان میں یہ مسئلہ مذہبی اور سائنسی سے بڑھ کر ریاستی مسئلہ بن چکاہے۔یہ اسلئے کہ ریاست ہی کی سردمہری اور عدم توجہی کے باعث رویت کا مسئلہ سنجیدہ بن چکاہے۔ریاست جب بھی خلوص نیت سے چاہے گی تو اس معاملے کو حل کراسکتی ہے لیکن حال یہ ہے کہ ریاست اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ایک طرف مرکزی رویت ہلال کمیٹی ہے (جس کے مفتی منیب الرحمن صاحب انیس سال سے چیئرمین ہیں) عید کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے صادر فرماتی ہے جبکہ دوسری طرف پشاور کی مسجد قاسم علی خان کے خطیب مفتی شہاب الدین پوپلزئی صاحب نے ایک اور رویت ہلال کمیٹی کا اہتما م کررکھاہے جوکہ مرکزی رویت ہلال کی غیرعملداری کی بین مثال ہی توہے۔ ریاست اور اس کی وفاقی وزارت مذہبی امور اگر واقعی اس اہم مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہوتی تواوپرسے مرکزی رویت ہلال کمیٹی میں اصلاحات کرپاتی اور نیچے سے ریاستی کمیٹی کے متوازی بننے والی کمیٹیوں کوختم کرادیتی لیکن حال یہ ہے کہ اس سے ایک بھی بن نہیں پارہا۔دوسری طرف دیکھا جائے تو مفتی شہاب الدین پوپلزئی صاحب کا شکوہ برمحل اور بجا بھی ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی ان کی شہادتوں کو قبول نہیں کرتی جس کی وجہ سے وہ اپنے تئیں رمضان اور عیدہونے کا اعلان کردیتے ہیں ۔ان کے مطابق وہ اس مسئلے کے حل کیلئے سات سال پہلے سینٹ کی کمیٹی کوآگاہ کرچکے ہیں لیکن تاحال اس کودرخوراعتناء نہیں سمجھا گیاہے۔مفتی پوپلزئی صاحب اور مفتی منیب الرحمن صاحب دونوں علمائے دین اورہمارے لئے قابل احترام ہیں لیکن میرے نزدیک یہ دونوں اس اختلاف کے ففٹی ففٹی ذمہ دار بھی ہیں۔مفتی منیب الرحمن صاحب کی کوتاہی یہ ہے کہ ملک کے دور دراز علاقوں باالخصوص خیبرپختونخواسے آنے والی شرعی شہادتوںکو وہ سنجیدہ نہیں لیتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی رمضان کے چاند کی بائیس شہادتیں آئی تھیں جس کومرکزی رویت ہلال کمیٹی سے منوانے کیلئے وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری سے سفارش بھی کروائی گئی لیکن اس کے باوجود بھی ان لوگوں کی شہادتوں کو نہیں لیاگیا۔خیبرپختونخوا میںہرسال چاند دیکھنے کے گواہ تو پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کی شہادتیں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی طرف سے ردکرنے کی وجہ سے لوگ مایوس بھی ہوجاتے ہیں اور غیرسرکاری کمیٹیوں کی طرف مراجعت بھی کرتے ہیں۔ یعنی اس معاملے میںخیبرپختونخوا میں ایک سپیس موجود رہاہے جس کا فائدہ ظاہر بات ہے کہ غیرسرکاری کمیٹیاں اٹھائینگی۔دوسری طرف دیکھا جائے تو مفتی منیب الرحمن صاحب کی کوتاہی اور قصرکے مقابلے میں اتنا ہی پوپلزئی صاحب تجاوزکررہے ہیں۔ کیونکہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی شکل میں ایک آئینی فورم ہونے کے باوجود انہوں نے ایک متوازی اور غیرآئینی کمیٹی بنائی ہے جو شریعت اور قانون دونوں کی نظر میںصحیح نہیں ہے۔اس قضیے کاآسان ترین حل فقط ریاست ہی کے پاس ہے جس کو پوری خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ حرکت میں آناچاہیے۔خیبرپختونخوا میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی زونل کمیٹی میں مفتی غلام الرحمن، مفتی مختاراللہ حقانی،مفتی نجم الرحمن، مفتی غلام قادرحقانی،مولانا شیخ ادریس آف چارسدہ، مولانامجیب الرحمن دیروی جیسے جید علماء میں سے کسی ایک کو اس زونل کمیٹی کا چیئرمین اورساتھ ساتھ مفتی پوپلزئی صاحب کو بھی اس کمیٹی ایک ذمہ دارمنصب کا عہدہ دیاجائے۔اس کمیٹی کاصدر دفترمسجد قاسم علی خان ہی سہی ، لیکن دوسرے مفتیان کرام کی باہمی مشاورت اور رضامندی سے شہادتوں کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی تک پہنچانے کی سہولت دی جائے۔یہاں یہ وضاحت بھی کرتاچلوں کہ چانددیکھنے کے مسئلے کے بارے میں بہت سے لوگوں کویہ دعویٰ کرتے سنا ہے کہ یہ مذہبی نہیں بلکہ ایک سائنسی مسئلہ ہے۔ ان حضرات کے جواب میں اتنا عرض ہے کہ بے شک رویت ہلال میں سائنس کی مدد لینے میں کوئی قباحت نہیں لیکن اس کو مطلق سائنس کامسئلہ کہنابھی خام خیالی ہے۔ اگر اس بارے میں سائنسی آلات کے نتائج کوقطعی مان لیاجائے تو پھر موسمیات کے ماہرین اورسائنسدان حضرات کی آراء میں اختلاف اور تفاوت کیوں؟بہرکیف اس مسئلے کے شرعی یا سائنسی ہونے کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کیلئے معزز قارئین مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع ؒ کی تحقیقی کتاب ’’رویت ہلال‘‘ پڑھ سکتے ہیں۔