دست شناسوں‘نجومیوں اور زائچہ نویسوں کی پیش گوئیوںکی طرح میں نے سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے بارے میں مختلف سروے رپورٹوں پر کبھی اعتبار نہیں کیا‘چوالیس سالہ صحافتی زندگی میں نامی گرامی ماہرین فلکیات اور دست شناسوں کی پیش گوئیوں کو میں نے غلط ہوتے دیکھا اور صرف مقامی نہیں بین الاقوامی شہرت کے اداروں کی سروے رپورٹیں جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئیں ‘سال ڈیڑھ سال قبل امریکہ اور برطانیہ کے معتبر تعلیمی اداروں نے سائنسی بنیادوں پر پاکستان میں کورونا سے لاکھوں اموات کی پیش گوئی کی‘عوامی سطح پر شورش کے خدشات ظاہر کئے‘مگر ہوا اس کے بالکل اُلٹ‘شرح اموات میں امریکہ سب پر بازی لے گیا جبکہ پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم‘عوام کی سخت جانی اور حکومت کی بہتر منصوبہ بندی سے بڑے جانی نقصان سے محفوظ رہا۔مجھے 1981ء سے مختلف اخبارات و جرائد میں دست شناسوں‘نجومیوں اور زائچہ نویسوں کے علاوہ روحانیت کے علمبردار بعض سکالرز کی پیش گوئیاں اور سروے رپورٹیں توجہ سے پڑھنے کی عادت ہے‘عرصہ دراز تک میں انہیں محفوظ رکھتا اور سال کے اختتام پر ناقدانہ جائزہ لیتا رہا‘ہزاروں پیش گوئیوں اور سروے رپورٹوں میں سے بمشکل ڈیڑھ دو درجن ہی درست نکلیں باقی سب حرف غلط‘ثابت یہ ہوا کہ غیب کا علم اور مستقبل کا حال صرف وہی علیم و خبیراللہ جانتا ہے جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا۔ مجھے یہ باتیں انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینئن ریسرچ کا حالیہ سروے دیکھ کر یاد آئیں ۔سروے رپورٹ میں عمران خان کی مقبولیت نواز شریف سے کم دکھائی گئی ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق تین ہزار سات سو افراد سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں تینتیس فیصد افراد نے میاں نواز شریف پر اعتماد کا اظہار کیا کہ وہ موجودہ مسائل حل کر سکتے ہیں جبکہ تیس فیصد کے خیال میں عمران خان اور سولہ فیصدکی رائے میں بلاول بھٹو اس کے اہل ہیں۔سروے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان خان بزدار کی کارکردگی باقی تین صوبوں کے وزراء اعلیٰ سید مراد علی شاہ‘محمود خان اور عبدالقدوس بزنجو سے بہتر بلکہ بہترین ہے۔ تقابل اور موازنہ اگرچہ مختلف شخصیات کے درمیان ہے اور نہیں کہا جا سکتا کہ عمران خان کی کارکردگی سے نالاں رائے دہندگان کو عثمان بزدار کیسے بہتر لگے‘کیونکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا دونوں صوبوں کے وزراء اعلیٰ عمران خان کا حسن انتخاب ہیں‘کپتان کے ہنر کا شاہکار‘ان دونوں کا اچھا برا ہی عمران خان کے کھاتے میں درج ہو رہا ہے اور انہی کی کارکردگی سے ’’مطمئن‘‘ ووٹروں نے حالیہ ضمنی ‘کنٹونمنٹ اور بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کے اُمیدواروں کی گت بنائی ہے لیکن یہ اللہ لوک رائے دہندگان عثمان بزدار سے مطمئن ہیں اور عمران خان سے بیزار۔ ؎ سورج میں لگے دھبہ فطرت کے کرشمے ہیں بُت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے میں نے ایک دوست سے پوچھا یہ سروے کیا ہے اور سروے کرنے والے ادارے کی ساکھ کتنی؟خوب جواب دیا‘بولے آپ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اسلم خان رئیسانی کا مشہور عالم جملہ بھول گئے‘ڈگری‘’’ ڈگری ہوتی ہے‘اصلی ہو یا جعلی‘‘سروے بھی سروے ہوتا ہے‘اصلی نقلی کا کیا سوال؟ ہم ہنس دیے‘ہم چپ رہے‘منظور تھا پردہ تیرا عثمان بزدار نے تینوں وزراء اعلیٰ کو پیچھے چھوڑ دیا‘یہ میرے لئے خوشی کی خبر ہے کہ ساڑھے تین سال سے تحریک انصاف کے مخالفین ہی نہیں حامیوں کی طرف سے سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ کی ’’حسن کارکردگی‘‘ پر جارحانہ بلکہ سفاکانہ تنقید سن کر تنگ آ چکا ہوں‘جو اٹھتا ہے‘بزدار بے چارے پر کوڑا برسانے لگتا ہے۔’’یہ گونگا پہلوان ہے‘اپنا مافی الضمیر بیان کر سکتا ہے نہ کارکردگی اجاگر کرنے کے قابل‘‘’’اس کے رشتہ دار خوب دیہاڑی لگا رہے ہیں اور ’’گجر‘ ٹی کے ‘‘ جیسے فرنٹ مین مال بنانے میں مشغول‘‘وغیرہ وغیرہ ۔سروے منظر عام پر آنے کے بعدناقدین کا مُنہ بند کیا جا سکتا ہے کہ دیکھیں بزدارنے تین ہم منصبوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور عمران خان کی کارکردگی سے نالاں رائے دہندگان بھی اس چھپے رستم کے حق میں رطب للسان ہیں۔ایسی چنگاری بھی یا ربّ اپنے خاکستر میں تھی۔ صوبائی وزیر بلدیات محمود الرشید نے بلدیاتی انتخابات 15مئی کو کرانے کا اعلان کر دیا ہے جو عمران خان سے زیادہ عثمان بزدار کے لئے چیلنج ہے پاکستانی ووٹروں کا لندن کے موسم کی طرح کوئی اعتبار نہیں ‘یہ نعرے کسی کے لگاتے ہیں‘کھانا ایک انتخابی دفتر میں بیٹھ کر کھاتے اور ووٹ کہیں اور دے آتے ہیں۔ خدانخواستہ مئی جون کے بلدیاتی انتخابات میں نتائج تحریک انصاف کے حق میں نہ نکلے تو عثمان بزدار کے ساتھ ساتھ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینئن ریسرچ کی ساکھ بھی مجروح ہو گی‘مجروح کیا داغدار ۔بہتر یہ ہے کہ اگلے چار پانچ ماہ تک یہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کم از کم ان تین ہزار رائے دہندگان کو عثمان بزدار کے مخالف کیمپ میں جانے سے روکے رکھے جو وزیر اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی کے حق میں رائے دے چکے‘تحریک انصاف کے مخالفین اور عثمان بزدار کے ناقدین کی زبانیں بند رکھنا تو مشکل ہے مگر عمران خان کے پرجوش حامیوں کو مبارک ہو کہ سروے رپورٹ کے مطابق عام لوگ اگرچہ کپتان پر نواز شریف کو ترجیح دینے لگے ہیں مگر عثمان بزدار سے مایوس نہیںحیرت البتہ اس بات پر ہے کہ آئی پی او آر نے عمران خان کا موازنہ میاں نواز شریف سے کیا مگر بزدار کے مدمقابل محمود خان‘مراد علیشاہ اور عبدالقدوس بزنجو کو کھڑا کیا‘شہباز شریف سے کنّی کترا گیا‘شائد سوچا ہو کہ دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کی ضرورت کیا ہے۔اندیشہ فقط یہ ہے کہ بزدار صاحب موجودہ سپیڈ برقرار رکھتے ہوئے کہیںعمران خان بلکہ پاکستان سے بھی آگے نہ نکل جائیں۔ میری ذاتی رائے اب بھی اگرچہ یہی ہے کہ دست شناسوں ‘نجومیوں زائچہ نویسوں کی پیش گوئیوں کی طرح سروے رپورٹ بھی نری تک بندی ہوتی ہے‘کبھی کبھی تُکا لگ جائے تو اگلے چار پانچ سال تک دکان پڑی‘ ‘زود فراموش پاکستانی ویسے بھی کب یاد رکھتے ہیں کہ کل کس نے کیا کہا‘کس کی پیش گوئی کتنی بار غلط ثابت ہوئی؟۔قوم کی یادداشت مثالی ہوتی تو وہ بھلا 1985ء سے 2018ء تک لوٹ مار کے ریکارڈ کرنے والوں کو بھولتی اور بار بار اپنا حکمران بناتی؟خیر یہ تو جملہ معترضہ ہے‘مئی جون کتنی دور ہے ‘عثمان بزدار کی کارکردگی سے مطمئن عوام کے دل میں کیا ہے؟پتہ چل جائے گا۔