عارف نظامی مرحوم کے بارے میں لکھتے ہوئے میں سچی بات ہے‘عجز بیاں کا شکار ہوں۔ سینتیس اڑتیس سالہ پیشہ ورانہ رفاقت ‘ باہمی احترام‘اور قربت و اعتماد کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے اور کبھی لوٹ کے نہ آنے والے کی یادوں کو سمیٹناآساں نہیں۔ عارف نظامی صاحب یکم جولائی سے ہسپتال میں تھے اور چلتی ‘ رکتی ابھرتی ڈوبتی نبضیں اُن کے اہل خانہ کی طرح ہم ایسے خیر خواہوں کو پریشان رکھتیں‘ دھڑکا ہر وقت لگا رہتامگر بُری خبر سننے کو کوئی تیار نہ تھا‘ اطلاع ملی تو زبان سے بے ساختہ نکلا ع یا الٰہی مرگ یوسف کی خبر سچی نہ ہو عارف نظامی سے ملنے ملانے کا سلسلہ 1983ء میں شروع ہوا‘ روزنامہ جنگ کے شعبہ رپورٹنگ سے وابستہ اخبار نویس نے روزنامہ نوائے وقت کے ایگزیکٹو ایڈیٹر عارف نظامی کو پنجاب اسمبلی کی پریس گیلری میں مختلف رپورٹروں کے ساتھ گپ شپ کرتے دیکھا تو تعجب ہوا کہ نظامی خاندان کے دونوں بڑوں حمید نظامی مرحوم اور مجید نظامی مرحوم کی تنک مزاجی کا شہرہ تھا ‘ ہمیشہ یہ سننے کو ملا کہ نظامی برادران کو اپنی قریبی حلقہ احباب سے باہر کے کسی شخص سے بے تکلفی کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے کبھی دیکھا نہیں گیا‘پریس گیلری اور اسمبلی کیفے ٹیریا میں عارف نظامی کی موجودگی کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے اخبار کی انتظامی ذمہ داریاں سنبھالنے کے باوجود رپورٹنگ سے ناطہ توڑا نہ تھا اور اپنی پہلی محبت یعنی رپورٹنگ کو انہوں نے تادم آخر گلے سے لگائے رکھا‘1985ء میں نوائے وقت جو ائن کیا تو ملاقاتیں بڑھیں اور نظامی خاندان کے اس ہونہار سپوت کو قریب سے جاننے کا موقع ملا‘ دوران ملازمت مجھے مجید نظامی صاحب اور عارف نظامی صاحب دونوں کی سرپرستی اور شفقت حاصل رہی اور طالب علم نے دونوں سے بہت کچھ سیکھا لیکن عارف صاحب سے ذہنی قربت اور بے پایاں اعتماد کا رشتہ گیارہ سال قبل استوار ہوا اور خدا کا شکر ہے کہ اُن کی آخری سانس تک قائم رہا‘ عارف صاحب بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے مگر شعبہ صحافت میں انہوں نے جو مقام اور احترام حاصل کیا وہ نہ تو حمید نظامی مرحوم کے وارث ہونے کے سبب تھا نہ مجید نظامی مرحوم سے خونی رشتے کے طفیل اور نہ محض ادارہ نوائے وقت سے وابستگی کا نتیجہ۔ خدا داد صلاحیتیں ‘ ذاتی ریاضت اور آگے بڑھنے کی اُمنگ نے انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کیا اور اپنے خاندان کا فخر بنے۔ عارف نظامی کو ہمیشہ یہ احساس رہا کہ وہ ایک دبنگ اور بے خوف صحافی حمید نظامی کے صاحبزادے ہیں اور انہیں مرحوم کے قابل فخر اثاثے یعنی خودی اور خودداری کی بہرحال حفاظت کرنی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم‘ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سے ذاتی مراسم کے باوجود اُن کے دامن پہ مفاد پرستی کا دھبہ لگا نہ چاپلوسی کا داغ ؎ اس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت عارف نظامی صحافیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو ترقی پسندانہ خیالات کے باوجود مادر پدر آزاد صحافت کو ملک و قوم کے لئے زہر قاتل سمجھتی اور ہمیشہ ذمہ دارانہ‘متوازن اور قومی اقدار‘روایات اور اخلاقیات کی علمبردار رہی‘ اخبارات و جرائد کے مالکان کی تنظیم اے پی این ایس اور مدیران جرائد کی تنظیم کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے سربراہ کے طور پر انہوں نے ’’ذمہ داری کے ساتھ آزادی‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور جابر‘ صابر اور شاطر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر صحافت کی آزادی بطور حق طلب کی‘ایں سعادت بزور بازو نیست۔ میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دور حکومت میں بطور وزیر اعظم صحافتی قوانین میں تبدیلیوں کی کوشش کی تو اے پی این ایس کی سالانہ تقریب میں جہاں میاں صاحب بطور سربراہ حکومت مہمان خصوصی موجود تھے‘ عارف نظامی صاحب نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے حکومتی اقدامات پر جارحانہ تنقید کی اور انہیں میڈیا کی آزادی سلب کرنے کے مضمرات سے آگاہ کیا۔ مجید نظامی صاحب نے اپنی باری آنے پر عارف نظامی کے نقطہ نظر کی حرف بحرف تائید کی‘ جس کا میاں صاحب نے برا منایا اور کھانا کھائے بغیر تقریب سے چلے گئے مگر اس اظہار ناراضگی پر عارف نظامی پریشان ہوئے نہ اپنے موقف میں نرمی پر آمادہ‘یہی حرکت محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں کی‘ اے پی این ایس اور سی پی این ای میں انہی اقدامات کے باعث دراڑ پڑی اور دو الگ الگ تنظیمیں وجود میں آئیں مگر عارف نظامی نے اس دھڑے کا ساتھ دیا جو حکومت مخالف کہلایا‘ حالانکہ عارف صاحب کے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سے ذاتی تعلقات مثالی تھے۔ نوائے وقت سے علیحدگی کے وقت عارف صاحب سی پی این ای کے صدر تھے اور یہ منصب انہیں نوائے وقت گروپ کے نمائندے کی حیثیت سے ملا مگر مدیران جرائد کی باوقار تنظیم نے انہیں اپنے منصب پر برقرار رکھا جو ان پر ملک بھر کے ایڈیٹرز کے اعتماد کا مظہر تھا۔ عمومی شہرت کے برعکس عارف صاحب ملنسار اور ہمدرد انسان تھے‘ نوائے وقت میں ہر ماہ دو ماہ بعد وہ شعبہ ادارت کے ارکان کے ساتھ گپ شپ کی مجلس برپا کرتے جس میں لذت کام و دہن کا اہتمام ہوتا‘اس بے تکلف مجلس میں ہر موضوع پر اظہار خیال کے دوران بسا اوقات عارف صاحب کو ساتھیوں کی ناقدانہ آراء سے بھی واسطہ پڑتا مگر وہ کبھی کبیدہ خاطر نظر آئے نہ روائت ترک کی‘ یہ روایت انہوں نے بعدازاں مخصوص رفقا کار کے ساتھ برقرار رکھی جس کا ذکر سجاد میر صاحب نے بھی اپنے کالم میں کیا مگر اسے ازراہ تفنن وہ کیا نام دیتے؟ یہ نہیں بتایا ؎ افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے اپنے والد گرامی حمید نظامی مرحوم کے ادارے سے علیحدگی کے بعد عارف نظامی کو دو بزنس ٹائیکون اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے میڈیا ہائوس قائم کرنے کی دعوت دیتے رہے مگر وہ نہیں مانے‘ ایک بار میں نے انکار کا سبب جاننا چاہا تو کہنے لگے’’عارف صاحب !میں حمید نظامی کا وارث ہوں‘مجھے اپنی اور حمید نظامی کی عزت اور ساکھ عزیز ہے‘میں اسے ہرگز دائو پر نہیں لگا سکتا‘ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔‘‘شریف خاندان ‘زرداری خاندان اور عمران خان سے اُن کے ذاتی تعلقات کسی سے مخفی نہ تھے مگر انکے طرز حکمرانی اور انداز سیاست پر جارحانہ تنقید میں ذاتی تعلقات آڑے آئے نہ ذاتی و صحافتی مفاد رکاوٹ بنا‘ خواہش کو خبر بنانے کے وہ قائل نہ تھے اور تجزیے میں مفاد کی آمیزش کو کبھی روا نہ رکھا ‘اسی باعث ہر سیاسی طبقہ فکر میں ان کا یکساں احترام کیا جاتا تھا اور خبر ان کے پاس چل کر آتی تھی۔ علم‘ معلومات اور خبر کی بنیاد پر تجزیے کو ہمیشہ پذیرائی ملی اور رقیبوں نے بھی ان کی پیشہ ورانہ دیانت پر کبھی انگلی نہ اٹھائی‘ مجھے یاد ہے کہ 1993ء میں جب انہوں نے ’’اسمبلیاں تحلیل حکومت برخاست کرنے کا اسحق منصوبہ‘‘ افشا کیا اور اپنی خبر میں نگران حکومتی ڈھانچے کی جزئیات تک درج کر دیں تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے رفقا سٹپٹا اٹھے اور ایوان اقتدار میں بھونچال آ گیا‘ میں اور سید انور قدوائی مرحوم ان کے کمرے میں بیٹھے تھے ‘جب انہیں وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات سعید اعوان کا فون آیا ‘وزیر اطلاعات نے اس ’’بے بنیاد‘‘ خبر کی اشاعت پر اپنی اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی برہمی سے آگاہ کرتے ہوئے ’’بصد افسوس‘‘ اطلاع دی کہ وفاقی کابینہ نے نوائے وقت اور دی نیشن کے اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ عارف صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا’’میں نے خبر ٹھوس معلومات کی بنیاد پر دی ہے جو اگلے چند گھنٹوں میں درست ثابت ہو گی آپ اپنے بچائو کے لئے کچھ کر سکتے ہیں تو کریں ‘رہا اشتہارات کی بندش کا معاملہ تو حکومت اپنی خیر منائے۔‘‘ عارف صاحب 92نیوز کے دفتر آتے تو عموماً میرے کمرے میں یا پروگرام ’’ہو کیا رہا ہے‘‘ کے اختتام پر سٹوڈیومیں ملاقات ہوتی‘ہسپتال جانے سے قبل آخری ملاقات میں بھی انہوں نے دوستوں کے ساتھ لنچ یا ڈنر اور گپ شپ کی روائت کو (جو نامراد کورونا وائرس کے باعث ڈیڑھ سال سے تعطل کا شکار ہے) زندہ کرنے کی ہدایت کی اور کہا دوستوں کو میرے غریب خانے پر لے آئیں‘ مگر یہ قسمت کو منظور نہ تھا‘ عید کے روز ان کے گھر جانا ہوا مگر عید ملنے اور کھانا کھانے کے لئے نہیں ان کی میّت کو کندھا اور محترم شعیب نظامی برخورداران علی نظامی‘ اسد نظامی ‘ یوسف نظامی اور بابر نظامی کو پرسہ دینے‘ آخری بار نہ ملنے کا احساس مارے دے رہا ہے ؎ اٹھ گئی ہیں سامنے سے‘ کیسی کیسی صورتیں روئیے کس کے لئے‘ کس کس کا ماتم کیجیے