پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا قیام اور اپوزیشن کی طرف سے احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان دلچسپ موضوع ہے جس پر یار لوگ اپنے مزاج‘ترجیحات اور خواہشات کے مطابق طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ایک طبقہ اس تحریک سے سول بالادستی کا سورج طلوع ہوتا دیکھ رہا ہے اور کسی کے دل و دماغ میں نئے انتخابات اور ایوان اقتدار میں داخلے کی آرزو انگڑائیاں لینے لگی ہے‘ حزب اختلاف کو یقین کامل ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں یہ سیاسی اتحاد عمران خان کا دھڑن تختہ کرنے میں ضرور کامیاب ہو گا کہ بقول شخصے ہمارے دیرینہ دوست ممالک موجودہ حکومت سے ناراض ہیں‘ طاقتور حلقے مایوس اور عوام بددل و مشتعل۔ طاقتور حلقوں کی مایوسی کی کوئی شہادت فی الحال دستیاب نہیں‘ دوست ممالک کی ناراضی کا سبب اگر ارطغرل ڈرامہ ہے یا سی پیک کا منصوبہ تو پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی بلا سے‘ ایک ارب ڈالر کی رقم بصد شکریہ واپس کر دی گئی‘ باقی بھی واپس ہو گئی تو زرمبادلہ کے ذخائر پر اثر پڑنے کا امکان ہے نہ قوی صحت خراب ہونے کا اندیشہ کہ ایک دربند تو دو در کھلے۔ارطغرل ڈرامہ پورے کا پورا میں نے دیکھا ہے اس میں کہیں کسی عرب اور غیر ترک مسلمان کی توہین کا پہلو نظر آیا نہ او آئی سی کے نام سے ایک بے ضرر‘ بے اثر اور بے وقعت تنظیم کی رسوائی ہوئی۔ منکرین اسلام کے خلاف جہاد‘ مسلمانوں کے اتحاد اور اسلام کے عروج کا پیغام البتہ تسلسل سے دیا گیا جس پر کسی کلمہ گو کو محض اس لئے تکلیف نہیں ہونی چاہیے کہ یہ ڈرامہ ترک حکمران طیب اردوان کو پسند ہے اور ترکی کل تک (1923ئ) سلطنت عثمانیہ کا مرکز تھا‘ عالم اسلام کا قائد اور حرمین شریفین کا متولی و مجاور۔ نیوکلیر پاکستان کی کوئی حکومت اگر سی پیک منصوبے کو اپنی مرضی سے پروان نہیں چڑھا سکتی اور سرکاری ٹی وی پر ارطغرل ٹائپ ڈرامہ دکھانے کے لئے بھی اُسے کسی دوست ملک کا این او سی درکار ہے تو پھر کر چکے ہم ترقی اور بن چکے ہم عالم اسلام کا بازوئے شمشیر زن۔عالم عرب کو اسلام کے ازلی دشمنوں‘صہیونیوں اور صلیبیوں کی طرح خلافت عثمانیہ سے چڑ ہے اور وہ طیب اردوان کے عزائم میں خلافت عثمانیہ کی بحالی کو محسوس کرتے ہیں تو یہ پاکستان کا سر درد نہیں ‘عرب دوست جانیں اور ترکی کے حکمران جانیں۔ پاکستان کا قیام اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر آیا اور ہمارے عوام اپنی تمام تر کمزوریوں‘ کوتاہیوں کے باوجود پاکستان کو جدید اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کے طور پر پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اقبال کے تصورات اور قائد کے نظریات کی ریاست۔ سی پیک پاکستان کے معاشی اور دفاعی استحکام کی علامت اور سلامتی کا ضامن منصوبہ ہے جسے امریکہ کے دست نگر کسی دوست ملک کی خواہشات پر قربان کیا جا سکتا ہے نہ اس کی قیمت پاکستان میں سیاسی تبدیلی کی صورت میں چکانا ممکن ہے۔ غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری البتہ سنگین معاملہ ہے‘ عمران خان کی حکومت کے لئے اصل چیلنج اور پاکستان میں سیاسی استحکام برقرار رکھنے کی شرط اوّل‘ دو سال گزرنے کے بعد عام آدمی وزیروں مشیروں کی اس دلیل پر کان دھرنے کو تیار نہیں کہ غربت اور مہنگائی میں اضافے کے ذمہ دار سابقہ حکمران ہیں اورمہنگی روٹی سابقہ حکومت کی کسی عوام دشمن پالیسی کا شاخسانہ ہے۔ دو سالہ حکمرانی کے بعد گران فروشوں‘ ذخیرہ اندوزوں ‘ سمگلروں اور دیگر مافیاز کو قابو کرنا عمران خان اور اس کی ٹیم کی ذمہ داری ہے‘ صوبوں کے وزراء اعلیٰ‘ وفاقی و صوبائی وزیر اگر ان مافیاز کے سامنے بے بس ہیں تو دوش سابقہ حکمرانوں کو دینا کج فہمی ہے۔ بندر کی بلا طویلے کے سر ڈالنے کے مترادف۔ مفلسی وہ قبیح چیز ہے جو انسان کو گناہ حتیٰ کہ کفر کی طرف دھکیل دیتی ہے۔کادالفقران یکون کفراً۔افلاس کا خاتمہ اور عام آدمی کے لئے سستی روٹی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے تاکہ بھوک کسی کو سرکشی‘بغاوت گناہ اور کفر کی طرف مائل نہ کر سکے۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒایسے صوفیا اور اصفیاروٹی کو اسلام کا چھٹا رکن قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک واقعہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ سے منسوب ہے۔ ایک عالم دین حضرت کے محفل نشین تھے اور اکثر علمی موضوعات پر بحث مباحثہ کیا کرتے‘ ایک بار حضرت نے پوچھا’’مولانا اسلام کے کتنے رکن ہیں؟ بولے ’’پانچ‘‘ گنج شکرؒ نے فرمایا ’’ہم نے تو سنا ہے کہ چھ ہیں اور اسلام کا چھٹا رکن روٹی ہے‘‘۔ مولانا نے لاحول پڑھی اور اُٹھ کھڑے ہوئے کہ آپ شیخ طریقت ہو کر ایسی بات کہہ رہے ہیں جو قرآن مجید میں ہے نہ حدیث رسولؐ میں‘ چند دن بعد مولانا فریضہ حج کی ادائیگی کے حجاز مقدس چلے گئے اور کئی سال تک وہاں مقیم رہے‘ وطن کی یاد نے ستایا تو واپسی کا ارادہ کیا اور ایک بحری جہاز میں ہندوستان روانہ ہو گئے‘ شومئی قسمت کہ راستے میں طوفان آیا جہاز طوفانی لہروں کی تاب نہ لا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور مولانا موصوف ایک تختے پر سوار کسی ویران جزیرے میں پہنچ گئے جہاں کھانے کو گھاس پھونس تک ندارد‘ تین چار روز بھوک سے نڈھال اللہ تعالیٰ کو یاد کر رہے تھے کہ ایک شخص نمودار ہوا جس کے پاس کچھ روٹیاں تھیں‘ مولانا نے اپنی کسمپرسی کی داستان بیان کی اور روٹی کے طلب گار ہوئے مگر اس نے مفت میں روٹی دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اپنی زندگی بھر کی نمازوں کا ثواب مجھے بخش دیں اور دو روٹیاں لے لیں‘ مولانا مرتے کیا نہ کرتے ‘یہ سودا کر لیا‘ دوسرے روز اس نے روزوں کے عوض دو روٹیاں دیں۔ تیسرے روز دو روٹیوں کے عوض حج اور عمرے کا ثواب اپنے نام کرا لیا۔ حتیٰ کہ مولانا نے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے تمام عبادات اس اجنبی کو دان کر دیں کہ جان بچانا فرض ٹھہرا۔ ایک روز قریب گزرتے بحری جہاز کے مسافروں نے انہیں دیکھ لیا اور بڑی مشکلوں سے وہ جہاز میں سوار ہو کروطن واپس پہنچ گئے ‘جودھن میں حضرت بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کی محفل میں حاضر ہوئے تو بابا جی نے پوچھا’’مولانا اسلام کے کتنے رکن ہیں‘’’ندامت ‘‘امیز لہجے میں تسلیم کیا کہ واقعی روٹی چھٹا رکن ہے ‘جو پیٹ میں نہ پڑے تو سارے ارکان اسلام کو بھلا دیتا ہے۔ اسی باعث آپ ﷺ نے افلاس سے ڈرایا کہ یہ انسان کو کفر کی طرف راغب کرتا ہے۔ موجودہ حکومت اگر عوام کی روٹی کا مسئلہ حل نہ کر پائی‘ آٹے‘ چینی‘ سبزی‘ گوشت‘چائے اور گھی کی قیمتیں کم نہ ہوئیں اور بجلی و گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا رہا تو اپوزیشن تحریک چلائے نہ چلائے عوام خود ہی اسے چلتا کرنے کی تدبیر سوچیں گے ۔میاں نواز شریف کی دوسری حکومت کے دوران شیخ رشید احمد کہا کرتے تھے کہ جس جس گھر میں مہنگی بجلی کا بل جاتا ہے وہاں موجود ووٹر ہم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اب بھی غربت اور مہنگائی عمران خان کی حقیقی دشمن ہے جس کا تدارک جلد ہو تو اچھا ہے‘ اپوزیشن کو ریاست کے سارے ادارے مل کر غیر موثر کر سکتے ہیں لیکن مہنگائی کا جور و جبر سے مقابلہ ممکن ہے نہ چکنی چپڑی باتوں سے اور نہ حساس اداروں نیب۔ایف آئی اے اور پولیس کی مدد سے‘ ڈنڈا مہنگائی اور گراں فروشوں‘ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف چلے تو سمجھو اپوزیشن کی تحریک ٹھس۔ ؎ پنج رکن اسلام دے تے چھیواں فریدا ٹُک جے لبھے نہ چھیواں تے پنجے جاندے مک