اسی سال مارچ میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، سابق معروف بیوروکریٹ اور سابق چیئرمین ماینارٹیز کمیشن وجاہت حبیب اللہ ، بھارتی فضائیہ کے ائروائس مارشل کپل کاک، سوشل ورکر سوشوبھا بھاروے اور سینئرصحافی بھارت بھوشن نے ’فکرمند شہریوں‘‘ (Concerned Citizens's Group) کے ایک گروپ کے نام سے جب کشمیر کا دورہ کیا، تو وہاں رہنے والے کشمیری پنڈتوں نے ان سے اس خدشے کا اظہارکیا کہ: ’’ بھارت میں انتخابات سے قبل کہیں وہ کسی False Flag آپریشن کا شکار نہ ہوجائیں، تاکہ اس کو بنیاد بناکر بھارت میں ووٹروں کو اشتعال و ہیجان میں مبتلا کرکے ایک بار پھر ووٹ بٹورے جاسکیں۔حالیہ عرصے میں کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے سویلین افراد کی ہلاکتوںکا جو سلسلہ سا شروع ہو گیا ہے، اسنے اس خدشے کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق اب تک 29افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 11غیر مسلم ہیں۔ ان میں تین کشمیری پنڈت، ایک سکھ خاتون اور دیگر غیر کشمیری مزدور ہیں۔ وادی کشمیر میں ہر سال بھارت کے مشرقی صوبہ بہار سے تین لاکھ کے قریب مزدور کام کرنے کیلئے آتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان ہلاکتوں کی وجہ سے ان میں سے دس سے بیس ہزار تک واپس چلے گئے ہیں۔ 1990ء میں عسکری سرگرمیوں کی ابتدا میں ہی کشمیری ہندوئوں جنہیں پنڈت کہا جاتا ہے، کی ایک بھاری تعداد نے جموں اور دہلی کی طرف ہجرت کی۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 60ہزار خاندانوںنے ہجرت کی تھی۔ ان میں ایک لاکھ 35ہزار ہندو، 12,157سکھ، 6,669مسلمان اور 19دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے تھے۔بھارت میں لیڈر اور صحافی ان اعداد و شمار کو اکثر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ تقریباً 800کے قریب پنڈت خاندانوں نے وادی میں ہی رہنے کو ترجیح دی تھی۔ ان کے لیڈر سنجے تکو نے ٹیم کو بتایا تھا کہ حکومت ’اسمارٹ سٹی پراجیکٹ‘ کے نام سے دریا کے کنارے پر واقع متعدد مندروں کی آرائش و تزئین کر رہی ہے اور اس سلسلے میں مقامی پنڈت آبادی کو پوچھا بھی نہیں جاتا ہے۔’’ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ کام سیکورٹی فورسز کے افراد کررہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے اور اس سے مقامی مسلم آبادی کو ان سے متنفر کیا جا رہا ہے۔‘‘ کشمیری پنڈتوں اور بہاری مزدوروں کی ہلاکتوں پر پورے بھارت میں ایک طوفان سا آگیا ہے۔بھارت کے کئی مقتدر مسلم رہنمابھی کشمیری مسلمانوں کو باور کرا رہے ہیں، کہ اقلیتوں کی حفاظت کیلئے ان کو میدان میں آنا چاہئے۔ ایک نیوز ویب سائٹ نے تو ایک بھارتی خفیہ افسر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر سید علی شاہ گیلانی زندہ اور سرگرم ہوتے، تو اس طرح کی ہلاکتوں کی وہ فوری طور پر روک تھام کرلیتے۔یہ سچ ہے کہ اقلیت کی سلامتی اور ان کا تحفظ اکثریتی فرقہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر کشمیر میں اکثریتی طبقہ تو اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اْدھار زندگی گزارنے والا کیسے کسی اور کی زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے؟ اگرچہ ان تمام مقتدر افراد نے ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کرکے اکثریتی فرقہ کو اپنی ذمہ داری یاد دلا دی ہے، مگر و ہ اتنے بے حس ہیں کہ ان کیلئے اننت ناگ میں 7اکتوبر کو آرمڈ فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بننے والے پرویز احمد خان اور 23 اکتوبر کو شاہد احمدکی ہلاکت پر کوئی ہمدردی ہی نہیں ہے۔ گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد خان کی لاش کو آدھی رات کو دفن کر دیا گیا ۔ ان کے والدین کو اسکی لاش پر آنسو بھی بہانے نہیں دیئے گئے ۔ کشمیر کی سبھی جماعتیں ، کشمیری پنڈتوں کی وادی کشمیر میں واپسی کی خواہاں ہیں۔ مگر اس دوران جن کشمیر پنڈتوں نے اپنی جائیدادیں قانونی طریقوں سے بیچ ڈالی تھیں، ان کو اب اکسایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی جائیدادیں واپس حاصل کریں۔ پچھلے کئی ماہ سے ان میں رہنے والے مسلمان خاندانوں کو بے دخلی کے نوٹس دیے جانے کی خبریں متواتر موصول ہورہی ہیں۔ حالانکہ یہ جائیدادیں انہوں نے قانونی طور پر خریدی ہوئی ہیں۔پانچ اگست 2019کو ریاست کو بھارتی یونین میں ضم کرنے اور بعد میں کووڈ وبا کے نام پر جہاںتما م بڑی مساجد اور درگاہوں میں اجتماعات یا محرم کے جلوسوں کی ممانعت کی گئی ، وہیں پندرہ اگست کو بھارت کی یوم آزادی کی تقریب، جنم اشٹمی، مہاتما گاندھی کے جنم دن و دیگر ایسی تقریبات کو اس سے مستثنیٰ رکھ کر عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ اس دوہرے رویے پر مقامی آبادی کا سوالات اٹھانا لازمی ہے۔ کشمیری پنڈتوں اور ایک سکھ خاتون کے قتل کی وجہ سے کشمیر میں اضطراب تو ہے ہی، مسلسل تلاشیوں، اندھا دھند گرفتاریوں، محاصروں اور فوجی آپریشنوں نے زندگی مزید اجیرن بنا کر رکھ دی ہے۔ خیر 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کے شہریوں پرجو قیامت ٹوٹ پڑی ہے اور جس طرح نریندرا مودی کی حکومت نے ان کے تشخص و انفرادیت پر کاری وار کیا ، ا س پر ہونا تو چاہیے تھا کہ مذہبی عناد سے اْوپر اٹھ کر اس کا مقابلہ کیا جاتا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ چند کشمیری پنڈتوں (ہندوئوں) کو چھوڑ کر ان کے بااثر طبقے نے ، جو ہندو انتہاپسند گروپ راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کے ایک بازو کے بطور کام کرتا ہے نے اس پر بغلیں بجاکر شادیانے منائے۔ وہ کشمیر کو بھول کر مذہبی اور نسلی تقسیم کے پیمانے سے معاملات کو جانچ رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بتایا گیا کہ 1990 ء میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، جس کی وجہ سے وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، آج مودی حکومت نے اس کا بدلہ چکایا ہے‘‘۔ آخر مبینہ طور پر چند مجرموں کے انسانیت کش قدم کی سزا اجتماعی طور پر پوری کشمیری قوم کو کیسے دی جاسکتی ہے؟ ویسے1990 ء سے لے کر اب تک کشمیر میں تو بھارت ہی کی فوجی، سیاسی اور انتظامی عمل داری ہے۔ جن لوگوں نے کشمیری پنڈتوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اس کو محض پروپیگنڈے کا ہتھیار بنایا گیا۔ یہ خود کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سوپور کے پرانے شہر میر سید علی ہمدانی کی خانقاہ سے متصل میرے محلے کے اطراف میں دو پنڈت بستیاں تھیں۔ ویسے بھارتی شہروں اور دیہات کی طرح، کشمیر میں ہندوئوں اور مسلمانوں کی کوئی علیحدہ بستیاں نہیں ہوتی تھیں۔ لکیروں کے بغیر ہی یہاںدونوں طبقے مل جل کر رہتے تھے۔کشمیری زبان کے کہنہ مشق شاعر رگھناتھ کستور اور واسودیو ریہہ میرے دادا سید غلام نبی، جو ابن حسام کے نام سے شاعری کرتے تھے، کے خاصے گہرے تعلقات تھے۔ کستور ہمارے اسکول میں حساب کے استاد بھی تھے۔ واسودیو ریہہ ، جو نابینا تھے، و ہ جب ہمارے گھر آتے، تو ان کو واپس اپنے گھر پہنچانا یا خانقاہ کے پاس دریائے جہلم کے گھاٹ پر کشتی پر سوار کروانے کی ڈیوٹی میرے ذمہ ہوتی تھی۔ (جاری ہے)