دوبئی کے تجارتی گھرانوں نے اعلیٰ ذات کے 6 ہندووں کو رواں سال مارچ ، اپریل میں مملکت سے نکال دیا۔ انہوں نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف تعصب و نسل پرستی پر مبنی ٹوئیٹس کئے تھے۔ متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کے ارکان اور مہذب سماج کے جہدکاروں نے دوبئی میں کام کرنے والے ہندووں کی جانب سے نفرت پھیلانے کے بڑھتے واقعات پر لب کشائی کی اور تشویش کا اظہار کیا۔ دوسری جانب آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (OIC) نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے ہندوستان میں مسلم دشمن پالیسیوں پر عمل آوری کی مذمت کی۔اس تناظر میں ہندوستانی سفیر متعینہ متحدہ عرب امارات نے جو مبینہ طور پر خود ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے ایک ہمدرد ہیں نفرت پر مبنی تقاریر کی مذمت کی۔ ساتھ ہی انہوں نے دوبئی میں مقیم ہندووں کو مشورہ دیا کہ وہ نفرت پھیلانے والے ٹوئٹس نہ کریں۔ اسی طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے جو ہندو فاشسٹ تنظیم کے قد آور لیڈر سمجھے جاتے ہیں فوری ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کا کوئی مذہب نہیں اور یہ مہلک وائرس مذہب، ذات پات، رنگ و نسل اور رتبے کی بنیاد پر انسانوں کو نشانہ نہیں بناتا بلکہ سب ہی اس کا نشانہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ بیان گودی میڈیا اور خود ان کی پارٹی کے بعض ارکان کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو مسلمانوں سے جوڑنے کے بعد جاری کیا۔ اس سے پہلے عرب ملکوں میں کافی برہمی ظاہر کی گئی تھی۔ نتیجہ میں مودی اس طرح کا غیر متوقع بیان دینے پر مجبور ہوگئے۔ انتہا پسند ہندوئوں کے بیانات نے پھر ایک بار آر ایس ایس اور بی جے پی کے چہرے سے نقاب اْتاردیا ہے۔ ویسے بھی ہندوستان کی آزادی کے بعد پچھلے 74 برسوں سے آر ایس ایس اور اس سے عزم و حوصلہ پانے والی بی جے پی کے علاوہ دیگر ہندو فاشسٹ تنظیموں نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ عوام آج بھی یہ بھول نہیں پائے ہیں کہ ان ہی فاشسٹ طاقتوں نے دہشت گرد ناتھورام گوڈسے کی تائید و حمایت کی تھی جس نے فرشتہ امن گاندھی جی کو قتل کردیا تھا۔ ان کا قتل برطانوی سامراج سے ہندوستان کی آزادی کے فوری بعد کیا گیا۔ اب تو گوڈسے کے حامی ملک میں مقننہ کے اہم اداروں میں داخل ہوگئے ہیں اور یہ تمام امن پسندوں کے لئے ایک صدمہ جانکاہ ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جتنے بھی ٹوئٹس کئے گئے ہیں وہ دراصل اعلیٰ ذات کے ہندووں نے کئے ہیں جو ہندو فاشسٹ تنظیموں کے ارکان ہیں یا پھر ہمدرد۔ مشرقی وسطی میں تقریباً 35 لاکھ ہندو مقیم ہیں اور برسر خدمت ہیں۔ بڑی آزادی سے تجارتی سرگرمیاں بھی انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ہندووں کے اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھتی ہے اور کئی آر ایس ایس کے تربیتی یافتہ ورکرس ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں 1,405,398، قطر میں 351,210، کویت میں 3,50,000، عمان میں 259,780، بحرین میں 1,50,000، یمن میں 1,50,000 اور سعودی عرب میں 40 ہزار ہندو مقیم ہیں۔ آر ایس ایس کے ہندو کئی خلیجی ممالک میں خفیہ طور پر انتہا پسندوں کے کیمپس کا اہتمام کرتے ہیں جس میں وہ اسلام دشمن اور مسلم دشمن نظریات کا پروپگنڈہ کرتے ہیں۔ انہیں برہمن ازم کے تئیں ان کے فرائض یاددلائے جاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ مقصد بھی یاددلایا جاتا ہے کہ ہندوستان سے مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے اور یہ مقصد ان کے ذہنوں میں بٹھایا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی خفیہ تنظیموں کے لئے جاسوسی بھی کرتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہندوستان، مسلم دنیا میں کام کرنے والے ہندوستانیوں سے زرمبادلہ کی شکل میں سالانہ 120 ارب ڈالرز کماتا ہے یعنی حاصل کرتا ہے۔ اس قدر بیرونی زرمبادلہ سے محرومی کے خوف سے ہی نریندر مودی اور متحدہ عرب امارات میں ہندوستان کے سفیر کو فوری بیانات جاری کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور دونوں نے مبہم بیانات جاری کئے۔اگر حکومت ہند اس قسم کے مسلم دشمن بیانات کی مذمت میں سنجیدہ ہوتی تو وہ ان لوگوں کو ضرور سزا دیتی جنہوں نے گائوکشی کے نام پر مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا۔ حکومت ان لوگوں کی پارلیمنٹ رکنیت ختم کرسکتی تھی جنہوں نے مہاتما گاندھی کے قاتلوں کی تائید و حمایت کی اور جنہوں نے دلتوں اور اقلیتوں کے خلاف تشدد کی وکالت کی۔خلیج کی قیادت کو یہ سمجھنا لازمی ہے کہ ان کے معاشرہ میں ایک تنظیم تربیت یافتہ فاشسٹ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی موجودگی ان کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔آر ایس ایس خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے کسی بھی ملک میں بغاوت برپا کرواسکتی ہے تاکہ وہاں اعلیٰ ذات کے آر ایس ایس ہندووں کی مدد سے اپنی مرضی و منشاء کی حکومت قائم کی جاسکے۔اسلام اور مسلمان اسلاموفوبیا سے بچ جائیں گے لیکن خلیج کا معاشرہ آر ایس ایس کی سازشوں اور اس کی اسکیموں سے موثر انداز میں نمٹ نہ سکے۔ اب خلیج کی قیادت کے لئے اعلیٰ ذات کے ان ہندووں کا پتہ چلانا ضروری ہوگیا ہے جو آر ایس ایس اور بی جے پی کے وفادار ہیں۔ (بشکریہ: سیاست)