مکمل لاک ڈائون تو خیر پاکستان میں ہوا ہی نہیں‘ جزوی لاک ڈائون بھی اب صرف ٹرانسپورٹ ‘ تعلیمی اداروں‘ بڑے شاپنگ مالز ‘شادی ہالوں اور ریستورانوں کی حد تک برقرار ہے‘ میرا خیال ہے پیر کے روز سے ریستوران بھی کھل جائیں گے اور کھلنے کا کوئی جواز بھی انہیں مل جائے گا‘ ڈیڑھ ماہ کے لاک ڈائون میں عمران خان کو اندازہ ہوا کہ یہ قوم ’’چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے‘‘ کے مقولے پر یقین رکھتی ہے اور ہمارے سیاستدانوں نے اس سوچ کا ہمیشہ فائدہ اٹھایا‘ روکڑا دے کر ووٹ بٹورو‘ چند ٹکے نقد ہتھیلی پر رکھو اور زندہ باد کے نعرے لگوائو‘ ووٹر سپورٹر صاف پانی کا مطالبہ نہیں کرے گا‘ جوہڑ کے گندے پانی کو آب حیات سمجھے گا‘ سکول درکنار ڈھنگ کے ہسپتال اور زندگی بچانے والی ادویات کا تقاضا ہو گا نہ عزت و آبرو کے تحفظ اور حصول انصاف کے لئے ایماندار‘ فرض شناس پولیس اور عدلیہ کی ڈیمانڈ۔دیہی ہسپتالوں میں آوارہ اور پاگل کتوں کے کاٹے کی ادویات‘ تپ دق‘ ہیپاٹائٹس ‘ پولیو اور دیگر امراض کے علاج اور گندا پانی پینے سے جنم لینے والی بیماریوں کے سدباب کی فکر ماضی میں کسی کو تھی نہ اب ہے ‘ یہ محض جہالت‘ پسماندگی اور بے بسی کا شاخسانہ نہیں‘ حکمران طبقے کی سنگدلی کا مظہر بھی نہیں‘ ’’باشعور ‘‘عوام معیاری‘ تعلیمی و طبی سہولتیں مانگتے ہیں نہ باعزت روزگار‘ انہیں نقد امداد چاہیے مفت میں پیٹ پوجا کا اہتمام ہو جائے تو ہم خوش‘ ہمارا خدا خوش‘ بچوں کا مستقبل‘ تعلیم‘ صحت اور معیار زندگی متوسط اور اعلیٰ طبقے کے چونچلے ہیں جن سے عوام کی اکثریت کو سروکار نہیں۔ لاک ڈائون کے خاتمے کے بعد اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ کورونا سے بچائو کی تدبیر کریں‘ ہماری قوم نظم و ضبط کو جنجال اور قانون پسندی کو کمزوری کی سمجھتی ہے جن لوگوں نے لاک ڈائون کے دنوں میں احتیاطی تدابیر کو جوتی کی نوک پر رکھا ‘ان سے اگلے دنوں میں ایس او پیز پر عملدرآمد کی توقع کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے مترادف ہے اگلے ایک دو دن میں گلی‘ محلے بازاروں اور دکانوں پر بے ہنگم رش حکمرانوں کی ساری توقعات پر پانی پھیر دے گا ‘کھوے سے کھوا چھلے گا اور سماجی فاصلے کی وہ مٹی پلید ہو گی کہ الاماں والحفیظ۔ حکومت نے دکانیں صبح نماز فجر سے شام پانچ بجے تک کھولنے کی اجازت دی ہے لیکن میرا نہیں خیال کہ لوگ اوقات کار کی پابندی کریں گے‘ پولیس ڈنڈے برسانے سے رہی‘ آمدنی کا نیا کھاتہ کھل رہا ہے تو وہ جیب گرم کرنے پر توجہ دے گی‘ عیدی وصول کرنا اس کا پیدائشی حق ہے کورونا کے طفیل موقع مل رہا ہے تو وہ ضائع کیوں کرے گی کہ ع رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے حکومت کو بھی قدرت نے معاشرے میں نظم و ضبط قائم کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا ہے اگر اس کا فائدہ اٹھا کر جملہ کاروبار صبح نماز فجر سے شروع کر کے سارا دن جاری رکھنے اور شام پانچ نہیں تو چھ بجے بہر صورت بند کرنے کی تدبیر کرے تو یہ صحت‘ خاندانی زندگی‘ امن و امان اور بجلی کی بچت کے حوالے سے تاریخی اقدام ہو گا۔ چند خلیجی ممالک کے سوا دنیا میں کہیں رات گیارہ بجے تک کاروبار ہوتا ہے نہ شادی بیاہ کی تقریبات کا رواج ہے۔ یہ دیگر فضولیات کی طرح ہمارا طرہ امتیاز ہے۔ کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد گیلپ پاکستان اگر خواتین اور بچوں کی رائے معلوم کرتا تو میرے اندازے کے مطابق نوے پچانوے فیصد ‘سربراہ خانہ کی موجودگی سے مطمئن اور خورسند نظرآتے ‘اسلام کے نام لیوا معاشرے کو معلوم نہیں کب احساس ہو گا کہ رات کو اللہ تعالیٰ نے آرام و سکون اور دن کو معاشی و سماجی سرگرمیوں کے لئے تخلیق کیا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشرے میں جہاں تیس چالیس فیصد کے قریب عوام خط غربت کے اردگرد زندگی بسر کرتے ہیں ہر شہر میں مہنگے شادی ہالز اور پرتعیش شاپنگ مالز کی موجودگی ویسے بھی مفلسی کا مذاق اڑانے اور فضول خرچی کے غیر انسانی و غیر اسلامی کلچر کو فروغ دینے کے مترادف ہے حکومت اگر چاہے تو ان شاپنگ مالز اور شادی ہالز کو ہمیشہ کے لئے بند کر کے معاشرے میں دولت کی بے ہنگم دوڑ کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ پیسے کی اس دوڑ نے کرپشن کا کینسر پیدا کیا‘ مرغن کھانوں کا ذوق بڑھا جس کا لازمی نتیجہ خراب صحت کام چوری اور جسمانی سستی ہے ایک دوسرے کی ریس میں مہنگے کپڑے‘ مہنگے زیور‘ آرائش و زیبائش کا سامان اور پھر چل سو چل۔ عمران خان اگر معاشرے میں واقعی توازن لانا چاہتے ہیں تو شادی بیاہ کی تقریبات میں مہمانوں کی تعداد کو زیادہ سے زیادہ سو افراد تک محدود کریں۔ون ڈش کی طرح یہ پابندی بھی غریب اور متوسط طبقے میں مقبولیت حاصل کرے گی اور لوگ تادیر یاد رکھیں گے‘ امتحانات کے سلسلے میں حکومت کا فیصلہ متنازعہ ہے‘میٹرک‘ ایف اے ‘ ایف ایس سی کے امتحانات میں گیارہویں جماعت کے نمبروں کی بنا پر اگلی جماعتوں میں داخلے کا فیصلہ میڈیکل اور انجینئرنگ کے طلبہ کے لئے سوہان روح ہے‘ جو طالب علم پچھلے سال کسی وجہ سے اچھے نمبر نہیں لے سکے‘ اس سال محنت کر کے زیادہ سے زیادہ نمبر لے کر معیاری تعلیمی اداروں میں داخلے کے خواہش مند تھے‘ ان کی حق تلفی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب تک کورونا کی وبا نے پاکستان کو امریکہ‘ برطانیہ‘ اٹلی‘ فرانس اور سپین کی طرح مفلوج نہیں کیا‘ خدا کرے کہ اگلے پندرہ دن بھی عافیت سے گزریں اور مریضوں و اموات کی تعداد میں مزید اضافہ نہ ہو‘ اب تک ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور طبی ماہرین کے اندازے غلط ثابت ہوئے اللہ آئندہ بھی پاکستانی عوام کو اپنی حفظ و امان میں رکھے‘ تاہم حکومت نے بہت بڑا رسک لیا ہے‘ حسب عادت قوم بے احتیاطی اور بے تدبیری کی مرتکب ہوئی‘ توازن برقرار نہ رکھ پائی اور لاک ڈائون کے خاتمے کو اس نے موذی وبا کے خاتمے کی نوید جانا تو مریضوں کی تعداد اور اموات میں بے پایاں اضافے کا امکان موجود ہے‘ جبکہ ایک بار خاتمے کے بعد کورونا کی نئی لہر کا اندیشہ بھی موجود ہے جس سے امریکہ‘ برطانیہ خوفزدہ ہیں۔ اس چھوٹ کے بعد ہمیں افطار پارٹیوں‘ آزادانہ میل جول اور گلی‘ محلوں‘ بازاروں میں ہجوم سے گریز کرنا ہو گا ‘جو ہماری عادت تو نہیں مگر مجبور ی ہے ‘ پبلک ٹرانسپورٹ کی بندش برقرار ہے جو کھلنے والے شعبوں کی سرگرمیوں پر منفی طور پر اثر انداز ہو گی۔ ہر مزدور اور کارکن کے پاس ذاتی سواری ہے نہ ہر آجر کے پاس ٹرانسپورٹ کا معقول انتظام۔ جن ایس او پیز کے ساتھ دیگر کاروبار کھولے گئے ہیں انہی کو ملحوظ رکھ کر پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے بھی کھولے جائیں ورنہ یہ چھوٹ محض نمائشی تصور ہو گی اور بڑی تعداد میں لوگ بدستور بے روزگاری کا عذاب جھیلتے رہیں گے۔ مزدوروں اور کارکنوں کو گھروں میں بٹھا کر چند کاروباری شعبے کھولنا ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔ یہ اشرفیاں لٹیں‘ کوئلوں پر مہر والی بات ہے۔ جس کا عمران خان کو احساس ہے صوبائی حکومتوں کو بھی ادراک ہونا چاہیے۔