دنیا میں قومیں نہ امداد کے سہارے اپنے پیروں پہ کھڑی ہوسکتی ہیں نہ ہی کچھ مضبوط ممالک کی دوستی کسی ملک کی معیشت کو کافی ہوسکتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی معیشت میں تجارت اور سرمایہ کاری سے زیادہ امداد اور معاشی تعاون کو اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کے بے شمار بیل آوٹ پیکچ،عالمی بینکوں کے قرضوں اور سعودی عرب سے مفت تیل کی کئی بار فراہمی اورمالی امداد کے باوجود پاکستان اب تک اپنے پیروں پہ کھڑا نہ ہوسکا ۔اس میں جہاں پاکستان کی تزویراتی اور جغرافیائی اہمیت کا دخل تھا جس کے طفیل وہ وقتا فوقتا امداد کے سہارے اپنی گرتی پڑتی معیشت کو سہارا دیتا رہا وہیں بدعنوانی اور نااہلی اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرتی رہی۔ سیاسی عدم استحکام بھی اس کی بڑی وجہ رہا کیونکہ دنیا بھر میں سرمایہ کاری سیاسی استحکام کی مرہون منت ہوتی ہے۔ ایسے ملک میں کوئی سرمایہ لگانا پسند نہیں کرتا جہاں حکومتیں لباس کی طرح تبدیل کی جاتی ہوں۔ گو ملک عزیز میں گذشتہ دس سالوں سے سیاسی استحکام رہا اور حکومتیں جمہوری طریقے سے آتی جاتی رہیں لیکن ان ہی دس سالوں میں ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا۔ درآمدات اورتجارتی خسارہ بڑھتا رہا، زرمبادلہ کے ذخائر گھٹتے گئے ، ادائیگی کے توازن میں فرق بڑھتا رہا، گردشی قرضے انتہا کو پہنچ گئے اور ملکی سرمایہ ان بڑے منصوبوں کی نذر ہوتا رہا جس سے سرمائے کی گردش میں بڑھوتری کی بجائے محض اخراجات میں اضافہ ہوتا رہا۔ ان بڑے منصوبوں میں چونکہ کک بیک اورکمیشن خوری کے مواقع زیاد ہ ہوتے ہیں اس لئے وہ ان حکمرانوں کو بہت بھاتے ہیں جنہیں پیسہ بنانے کا ہنر آتا ہو،جو اس سرمائے کو اپنے کاروبار کی بڑھوتری کے لئے استعمال کرسکیں اور جنہیں سیاسی تقریروں میں ان منصوبوں کا حوالہ دینے میں فخر محسوس ہو۔ چنانچہ آپ نے تواتر سے سنا ہوگا کہ ہم نے میٹرو بنائی، ہم نے موٹر وے بنائی اور ہم نے اورینج ٹرین چلانے کی کوشش کی۔ ان سے آپ نے کبھی یہ نہ سنا ہوگا کہ ہم نے برامدات میں ا اضافہ کیا،نئی صنعتیں لگائیں،فاضل زرعی اجناس اگائیں اور برآمد کیں اور لوگوں کو روزگار دیا۔ان حکمرانوں کو علم ہوتا ہے کہ انہیں صرف پانچ سال حکومت کرنی ہے اور ان کا ایک مخصوص ووٹ بینک ہے جو کبھی متاثر نہ ہوگا چاہے ان کی بدعنوانی کی داستانیں آسمان سے فرشتے لکھوا کر لے آئیں۔پاکستان میں حکومتیں کبھی ناکارکردگی اور نالائقی کی بنیاد پہ الٹائی نہیں جاتیں بلکہ ان کی وجوہات ہمیشہ سیاسی ہوتی ہیں۔ اس لئے مغز کھپاکر منصوبہ بندی کی ضرورت کس کو ہے۔سالانہ ملکی تخمینہ ایک گھسے پٹے طے شدہ طریقہ کار کے تحت بنایا جاتا ہے جو اکثر منفی توازن پہ مبنی ہوتا ہے۔ اس کے بعد جیسے تیسے خسارہ پور ا کرنے کا اہتمام کرلیا جاتا ہے ۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دروازے ایسی سہل پسند حکومتوں کے لئے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں ۔ یوں پانچ سال گزر جاتے ہیں اور نئی آنے والی حکومت پچھلی حکومت کی نالائقی کا رونا روتی اسی کے نقش قدم پہ چلتی رہتی ہے۔ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان میں پچھلی حکومت کے خلاف کرپشن، بدعنوانی اور ملک پہ گردشی اور بیرونی قرضہ جات کا اتنا غل مچا کہ ایک منتخب وزیراعظم کو نااہل ہوکر گھر جانا پڑا۔چونکہ سسٹم چلتا رہا اور وقت پہ انتخابات ہوئے اس لئے جہاں گزشتہ حکومت کو کام نہیں کرنے دیاگیا کا بہانہ نہ ملا وہیں اس وقت کی اپوزیشن کو کام کرنے کا موقع بھی دے دیا گیا جس نے اسی بدعنوانی اور نااہلی کو ہدف بنا کر ووٹ حاصل کئے۔یوں اس پہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوگئی کہ وہ گزشتہ حکومت کی غلطیاں دہرائے نہ اس کے ان جرائم کا اعادہ کرے جس سے ملکی معیشت کا جنازہ نکلا تھا۔موجودہ حکومت اسی اخلاقی دبائو کااس حد تک شکار ہوگئی کہ اس نے پاک چین سی پیک منصوبے پہ اعتراضات اٹھانے شروع کردیئے حتی کہ اس کے اقتصادی مشیر رزاق داود ایک جریدے کو بڑا غیر محتاط انٹرویو دے بیٹھے۔ اس میں غلطی گزشتہ حکومت کی بھی تھی جس نے اپنے مفادات کی خاطر اس گیم چینجر منصوبے کی تفصیلات عوام میںلانا مناسب نہ سمجھا۔یہاں ازراہ تفنن گزشتہ حکمرانوں کے اس دعوے کا تذکرہ بھی کیا جاسکتا ہے جس کی رو سے ملک میں سی پیک شریف برادران لے کر آئے۔ مجھے علم نہیں کہ گزشتہ حکمران کیا واقعی ورلڈ ویو یا عالمی منظرنامے سے لاعلم تھے یا عوام کو سمجھتے تھے جو ایسے بچگانہ دعوے کرنے میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ ہوتی تھی۔حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اس وقت پاکستان پہ نظام سقہ کی حکومت بھی ہوتی تب بھی سی پیک نے آنا ہی تھا۔بات اس حکومت پہ موجود اس اخلاقی دبائو کی ہورہی تھی جس کے تحت اب اسے نہ صرف پاکستان کو معاشی دبائو سے مستقل طور پہ نکلنے کی سبیل نکالنی ہوگی بلکہ اس سلسلے میں اٹھائے جانے والے اقدامات کو شفاف اور عوام کے لئے کھلا بھی رکھنا ہوگا۔غالباً یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار عوام کامعلومات تک رسائی کا حق یقینی بنانے کے لئے انفارمیشن کمیشن بنایا گیا ہے تاکہ انہیں علم ہوسکے کہ ان کے وسائل کہاں اور کس طرح خرچ ہورہے ہیں۔ یہ ایسا انقلابی اقدام ہے کہ اگر محض اسی کو پورے اخلاص اور شفافیت کے ساتھ نافذ کردیا گیا تو ملک سے کرپشن اور بدعنوانی کا بیشتر خاتمہ ممکن ہوجائے گا۔یہی اخلاقی ذمہ داری تھی جس نے عمران خان کو مجبور کیا کہ وہ چین جائیں تو نہ صرف سی پیک پہ بلکہ باہمی سرمایہ کاری کے امکانات پہ بات کریں ۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جب وہ چین سے لوٹے تو سی پیک کے علاوہ ان کے ہاتھ میں پاکستان کے لئے زراعت، تعلیم، ٹیکنالوجی ،تحقیق اور اقتصادی تعاون سمیت پندرہ مزید معاہدے ہیں۔چین کے ساتھ سرمایہ کاری میں پاکستان کی برآمدات صرف ایک ارب ڈالر جبکہ درآمدات پندرہ ارب ڈالر ہیں۔ اکنامک زون کی ری ڈرافٹنگ کرکے چین کو ویلیو ایڈڈ برامدات بڑھائی جائیں تو یہ تین سو گنا تک بڑھ سکتی ہیں۔ان میں صرف فیصل آباد ، گجرات اور کراچی کا اکنامک زون ہی پیداوار میں اضافہ کرسکتا ہے بشرطیکہ کوالٹی کنٹرول کو یقینی بنایا جائے۔چین کو پاکستان کی زرعی اجناس کی ضرورت ہے پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں کو لینڈ مافیا اور ہائوسنگ اسکیموں کے بھوکے جنات سے بچا کر ان میں زرعی اکناک زون بنائے جائیں جو صرف برآمدی ضروریات پوری کریں۔ چین سے درمدآت مکمل طور پہ ختم نہیں کی جاسکتیں جبکہ وہ سستی بھی ہوتی ہیں لیکن چین ہی کی پالیسی ، ٹیکنالوجی پلیجرازم یا نقالی کو اپنا کر یہی آشیا نہ صرف مقامی طور پہ بنائی جاسکتی ہیں بلکہ الٹے بانس بریلی بھیجے جاسکتے ہیں جبکہ چین تکنیکی تعاون پہ بھی آمادہ بھی ہوگیا ہے۔ قابل اطمینان امر یہ ہے کہ عمران خان امداد سے زیادہ سرمایہ کاری میں سنجیدہ ہیں اور یہی ان کے اخلاص کا امتحان ہے۔