ڈیرہ غازی خان جنوبی پنجاب کا ایک دور افتادہ ضلع ہے۔ انگریز دور حکومت میں ڈیرہ غازی خان کی تعمیر و ترقی پر بڑا کام کیا گیا اُنہوں نے ہی اِس شہر کا نقشہ بنایا اور پھر 1910ء میں موجودہ نیا شہر آباد کیا یہ شہر ڈیرہ غازی خان پچاس ہزا رآبادی کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اِس وقت اِس کی آبادی چار لاکھ سے تجاویز کر چکی ہے۔ یہ شہر ڈیرا پھلاں دا سہرا کہلواتا تھا اب ایسا نہیں رہا آبادی کے بے پناہ اضافہ اس کی بنیادی وجہ ہے ۔ اِس کے مغرب میں دامن کوہ سیلمان سے نکلنے والی رود کوہوں نے ماضی سے لے کر ابتک اِس کا مسلسل نقصان پہنچایا ہے لفظ رود کوہی فارسی اور بلوچی زبان سے نکلا ہے جس کے معنی پہاڑ کا پانی ہے ۔ پانی ہزاروں سالوں سے تیز اور بارشوں کے دوران نکلتا ہے ڈیرہ غازی خان میں آٹھ بڑی اور مشہور رود کوہیاں جاری ہوتی ہیںجن میں تونسہ کے ساتھ سب سے بڑی رود کو ہی سنگھڑ ہے جس کا پہاڑ افغانستان سے ملتا ہے ۔یہ بڑی رود کوہیاں افغانستان سے ہوتی ہوئی کوہ سلمان تک آتی ہے اورپھر وہاں سے تونسہ کے ساتھ درہ سنگھڑ میں داخل ہو کر دریائے سندھ میں ہیڈ تونسہ بیراج کے مقام پر مل جاتی ہے سنگھڑ میں دو لاکھ کیوسک پانی بھی آجاتا ہے اِسی طرح سنگھڑ کے بعد تونسہ سے 30 کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک اور بڑی رود کوہی جو کوہ سلیمان کے درہ سوری لنڈ سے شروع ہوتی ہے اس لیے اِسے سوری لنڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے اِس دفعہ شادن لنڈ کے اکثر علاقوں میں سب سے زیادہ تباہی اِسی سوری لنڈ کی وجہ سے آئی ہے جس سے پل قنبر سے لے کر بستی احمدانی ، چوکی والا ، یارو کھوسہ ، چک کوڑا خان وغیرہ کے علاقے تباہ ہو چکے ہیں۔ سوری لنڈ میں درجنوں بچے اور خواتین بھی بہہ گئے ہیں ۔ رود کوہی سوری لنڈ کے ساتھ محکمہ انہار نے ابھی اِس کے د و چینل اور تعمیر کرنے تھے جن کا سر وے ایکسئین عظیم خان بلوچ نے مکمل کر لیا تھا اِن دو چینل کی تعمیر کے لیے مقامی ایم پی اے سردار جاوید اختر خان لُنڈ نے بھی کافی کوشش کی ۔ صورتحال اِس وقت یہ ہے کہ لوگوں کی کپاس اور چاول کی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اِن کے مال مویشی رود کوہی میں بہہ چکے ہیں اور وہ بے یارو مد گار انڈس ہائی وے پر پڑے ہیں حالانکہ سوری لنڈ کے یہ دو چینل عوام ہی کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقوم سے بنایا جانا تھا نہ کہ ریسرچ آفیسر چیمہ صاحب کی ذاتی جاگیر سے ۔ لیکن علاقائی تعصب کی وجہ سے یہ چینل نہ بن سکے اور یوں آج عوام کو زبردست تباہی کا منہ دیکھنا پڑا ہے ۔ موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی اِس کی فوری تحقیقات کرائیں اور اتنی بڑی غفلت کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے کیونکہ ڈیرہ غازی خان میں اِس وقت زیادہ تر تباہی رود کوہی سوری لنڈ کی وجہ سے ہوئی ہے سوری لُنڈ کے بعد ڈیرہ غازی خان کی دوسری بڑی رود کوہی وڈور ہے جو سخی سرور اور اور دلانہ کے ساتھ کوہ سلیمان سے نکلتی ہے وڈور کا قدیم راستہ موجودہ ڈیرہ غازی خان شہر تھا جہاں کبھی لاشاری قبیلہ کے بقیہ جات تھے جن کو مقامی زبان میں پچھادھ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ وڈور رود کوہی پہاڑ سے نکل کر ڈیرہ غازی خان نواب غازی خان کے مقبرہ کے سامنے سے چورہٹہ سے ہوتی ہوئی سیدھا دریائے سندھ میں جا کر مل جایا کرتی تھی انگریزوں نے وڈور کے قدرتی راستہ کو نہ چھڑا اور اُسے دریا تک مکمل رسائی دی گئی لیکن پاکستان بن جانے کے بعد ہمارے نا اہل انجینئر ز نے وڈور رود کوہی کے اصل راستوں کو بند کر دیا یوں یہ رود کوہی تباہی مچانے لگی یہاں تک اگست 1955ء میں وڈور رود کوہی اچانک ڈیرہ غازی خان شہر میں داخل ہو گئی جس سے شہریوں کا کافی نقصان ہوا۔ پھر 9 ستمبر 2012ء کی شب ایسا ہوا اور شہریوں کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اِس کا اصل اور قدرتی راستہ ڈی جی خان کینال سے سیدھا دریائے سندھ تک ہے جہاں اب پر مکانات بن چکے ہیں اس دفعہ وڈور رود کوہی میں 98000 ہزار کیوسک پانی آنے سے بڑی تباہی ہوئی ہے جس کی زد میں بستی لوہار والا ، چٹ سرکانی ، چٹ ڈگر ، گد پور، بستی ببر ، بستی جمنا چانڈیہ کے علاقے متاثر ہو ئے ہیں۔ گزشتہ دنوں 25اور 26جولائی کو وڈور رود کوہی نے زبردست تباہی مچائی اِن علاقوں میں سینکڑوں ایکڑ رقبہ پر کپاس ، چاول اورتل کے فصلیں کاشت کی ہوئی تھیں جو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں وڈور رود کوہی کے بعد بڑی رود کوہی سخی سرور اور مٹھاون رود کوہی ہیں مٹھاون رود کوہی میں زیادہ تر فورٹ منرو سے آنے والا پانی داخل ہوتا ہے اور جب یہ دونوں رود کوہیاں مٹھاون اور سخی سرور آپس میں مل جاتی ہیں تو پھر اِن کی وجہ سے زیادہ تباہی ہوتی ہے۔ مٹھاون کی زد میں چوٹی بالا ، چوٹی زیریں ، بکھیر واہ جنوبی اور بکھیر واہ شمالی ، درخواست جمال خان کے علاقے زد میں آئے ہیں اِن علاقوں میں بھی زیادہ تر کپاس ، چاول ، جوار اور تل کی فصلیں کاشت کی گئی تھیں ۔مٹھاون آگے جام پور اور راجن پور کے علاقوں تک جا کر دریائے سندھ میں داخل ہو جاتی ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اِن کی رود کوہی میں ہر سال لاکھوں کیوسک پانی آتا ہے جو دریائے سندھ میں جا کر آگے حیدر آباد کے ساتھ سمندر میں داخل ہو کر ضائع ہو جاتا ہے اگر ڈیرہ غازی خا ن کے ارباب اختیار یہاں کے عوام کے ساتھ صحیح معنوں مخلص ہوتے تو درجنوں چھوٹے ڈیم بن سکتے تھے لیکن کسی نے بھی کچھ نہیں کیا ماسوائے ایک دوسرے کی مخالفت کرنے کے۔ اگر کوہ سلیمان سے نکلنے والی اِن رود کوہوں کے پانی کو کار آمد بنا دیا جاتا تو اِن علاقوں میں سبز انقلاب آجاتا اور لوگ ہمیشہ کے لیے تباہی سے بھی بچ جاتے اب بھی وقت ہے کہ اِن تمام بڑی رود کوہوں کے مختلف مقامات پر چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تا کہ ایک تو پانی محفوظ ہو جائے گا اور دوسرا تباہی کی بجائے اِن علاقوں میں زرعی انقلاب آجائے گا۔