راقم کچھ سالوں سے پاکستان میں ریڑھی بانوں کے حالات اور اس میں بہتری کے لیے تحقیق اور فعالیت پسندی پر مبنی کام کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں ملک کے مختلف شہروں میں جہاں ریڑھی بانوں سے زمینی حقائق سے آگاہی کے لیے ملاقاتیں ہوتی رہی، وہاں پر بازاروں میں دکانداروں سے ریڑھی بانوں کی موجودگی کے بارے میں بھی تبادلہ خیال ہوا۔ یہ دکانداروں سے بات چیت اس لیے بھی اہم ہے، کیونکہ پاکستان کے شہروں میں ریڑھی بانوں کی بڑی اکثریت انہی دکانداروں کی دکانوں کے آگے اپنی ریڑھی یا اسٹال لگا کر کام کرتے ہیں۔ اب اگر قانونی حیثیت پر ان ریڑھی بانوں کی موجودگی کو پرکھا جائے، تو عمومی طور پر یہ بلدیہ کے اجازت نامے کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ مگر ریڑھی بان اگر سرکار کو لائسنس کی مد میں کوئی ادائیگی نہیں کر رہے ہیں، تو اس کا مظلب یہ نہیں ہے کسی کو بھی کوئی پیسہ دیے بغیر سرکاری جگہ جیسے کہ فٹ پاتھ یا روڈ پر مفت کام کررہے ہونگے۔ ایک ریڑھی بان سے عوامی جگہ پر کام کرنے کی غرض کے عوض وصولی کے کافی سارے بھائی لوگ موجود ہوتے ہیں۔ اگر ہم بازاروں کا ذکر کرے تو یہاں ریڑھی بانوں سے وصول کنندہ میں سب پہلے وہ دکاندار آتے ہیں، جن کی دکانوں کے آگے یہ ریڑھی بان کام کررہے ہوتے ہیں۔ یہ دکاندار اپنی دکان کے آگے سرکاری زمین کو استعمال کرنے کے عوض روزانہ کی بنیاد پر کرایہ وصول کرتے ہیں۔ پاکستان انسٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کی اسلام آباد کے ریڑھی بانوں پر سروے رپورٹ کے مطابق روزانہ کا اوسط کرایہ 300 روپے کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ اچھی کمرشل مارکیٹوں میںیہ کرایہ 2000 1500 روپے تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ یہ بغیر لکھت پڑھت کے کرایہ وصول کرنے کی دکانداروں کی منطقیہ ہوتی ہے کہ کیونکہ وہ ان دکانوں کا ماہانہ ہزاروں یا لاکھوں روپوں میں کرایہ ادا کررہے ہیں، تو ایک تو ان ریڑھی بانوں کے دکان کے آگے کام کرنے کی وجہ سے ان کی فروخت متاثر ہوتی ہے اور پھر کرائے کی وصولی سے ان پر اپنی دکانوں کے کرائے اور کم فروخت کا مالی دبائو کم ہوجاتا ہے۔ یعنی غیرقانونی ریڑھی بانوں کو بٹھانے کا مقصد مالی فوائد ہے۔ ہمارے آج کے کالم کا فوکس دکانداروں کی اس دلیل کا رد ہے کہ ریڑھی بانوں کی وجہ سے ان کا کام متاثر ہوتا ہے۔ مگر اس سے پہلے ہم مارکیٹ میں ریڑھی بانوں کی موجودگی کے بارے میںیہ بات بھی واضح کردے کہ ہر دکاندار ریڑھی بانوں اپنی دکان کے آگے بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا اور کچھ تو اپنی دکان کے آگے سرکاری جگہ پر اپنا اسٹال لگا کر اپنا ہی ملازم بٹھا کر کاروبار کررہے ہوتے ہیں۔ اب یہ بات بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ دکاندار کرایے کے عوض ریڑھی بانوں کچھ سہولتیں بھی مہیا کررہے ہوتے ہیں، جس میں بجلی اور بعض جگہوں میں اسٹوریج کی فراہمی شامل ہے۔ مگر دکاندار اپنے کرائے دار ریڑھی بانوں کے لیے بلدیہ یا دوسرے سرکاری اداروں کے ریڑھیوں کی ضبطگیوں کے آپریشن کے سامنے نہیں کھڑے ہوتے ہیں۔ مگر دکاندار یہ احتیاط ضرور کرتے ہٰیں کہ جتنے دنوں تک ریڑھی بان اپنا ضبط کیا ہوا سامان سرکاری جرمانہ ادا کر کے نہیں لاتا، ان خالی دنوں کا کرایہ ریڑھی بان برابر ادا کرتا رہے۔ اب سرکار اور ریڑھی بانوں کے بیچ کے مسئلوں میں دکاندار اپنی دکان کے آگے سرکاری جگہ کے کرائے سے محرومی کا نقصان تو برداشت نہیں کرسکتا ہے۔ اب دکانداروں کے علاوہ ریڑھی بانوں سے غیرقانونی وصولیوں کے مد میں مستفید ہونے والوں میں بلدیہ، دیگر شہری ادارے اور پولیس کے نچلے درجے کے اہلکار شامل ہوتے ہیں۔ اور موقع ملنے میں کچھ میڈیا کے کرم فرما اور مقامی مافیا کے افراد بھی اپنا دائو لگا جاتے ہیں۔ پاکستان میں ریڑھی بانوں کی دکانوں کے سامنے موجودگی کا دکانداروں کے کاروبار میں کمی پرکوئی تحقیق تو موجود نہیں ہے۔ مگر امریکہ کے کئی شہروں میں اس موضوع پر تحقیق اور تفصیلی سروے ہوئے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج کا پاکستان کے معروضی حالات کے حساب سے یہاں مکمل اطلاق تو نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مگر دونوں ممالک کی ریڑھی معیشت کے بہت سارے عناصر میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ بڑے امریکی شہروں میں اکثردکاندار عمومی طور پر ریڑھی بانوں کے بارے شکایت کرتے پائے گئے ہیں کہ وہ دکانوں کے کاروبار کو متاثرکرتے ہیں، مارکیٹوں میں رش کا باعث بنتے ہیں، علاقے میں کچرا پھیلاتے ہیں اور پارکنگ کی جگہ گھیرلیتے ہیں۔ اس سلسلے میں جب تحقیقی اداروں نے نیویارک، لاس اینجلس اور دیگرامریکی شہروں میں مختلف اوقات میں سروے کیے گئے، تو دکانداروں کی شکایات میں صداقت کچھ کم ہی نکلی۔ اس تحقیق کے مطابق ریڑھی بانوں کی مارکیٹوں میں موجودگی دکانوں کا کاروبار کم کرنے کے بجائے بڑھاتی ہے۔ ریڑھی بانوں کی وجہ گاہکوں کی آمدورفت میں اضافہ ہوتا ہے۔ خریدار اکثر ریڑھیوں سے کھا پی کر اور تازہ دم ہوکر دوکانوں پر شاپنگ کے لیے زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔ ریڑھیوں پر فروخت ہونے والا سامان دوکانوں سے کم ورائٹی اور کوالٹی کا ہوتا ہے۔ ریڑھی بانوں کی مارکیٹ میں موجودگی گاہکوں اور دکانداروں کے لیے تحفظ کا احساس بڑھاتی ہے۔ جن مارکیٹوں سے ریڑھی بانوں کو ہٹایا گیا، وہاں خریداروں کی کمی کی وجہ سے چھوٹے دکانداروں کا کاروبار تباہ ہوا۔ اس حقیقت کا عملی مظاہرہ ہم نے اسلام آباد کی جی ٹین مرکز کی مارکیٹ میں دیکھا، جہاں کی مارکیٹ اسوسی ایشن کے کہنے پر مارکیٹ کے اندر موجود سارے ریڑھی بانوں کو حکومتی وینڈنگ لائسنس پروگرام کے تحت مارکیٹ سے باہر منتقل کر دیا گیا۔ مگر مارکیٹ میں کاروبار کی کمی کی وجہ سے دوکاندار مجبور ہوگئے کہ نئے ریڑھی بانوں کو اپنی دوکانوں کے سامنے دوبارہ لا کر بیٹھا لیا۔ اس قسم کے مسئلے اس وقت پیدا ہوتے ہیں، جب ہم زمینی حقائق کو نظرانداز کرے اور دوسروں کی ہماری اپنی معاشی زندگی میں افادیت کو تسلیم نہ کرے، تو وہی ہوتا ہے جو ریڑھی بانوں کو ہٹانے کی وجہ سے نیویارک اور اسلام آباد کے دکانداروں کے ساتھ ہوا۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی اشد ضرورت دکانداروں کے ساتھ حکومت کو بھی ہے۔