بائیس کروڑ آبادی کے ساتھ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا اور کم آمدنی والا ملک ہے۔ اس کی۴۲فیصد بالغ آبادی  نا خواندہ  ہے۔ اور اگر اس تعداد کو کم پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد کے ساتھ ملائے جائے، تو ملک پر روزگار کی فراہمی کے دباؤ کی خوفناک تصویر ابھرتی ہے۔  اس صورت حال میں پاکستان کی کوئی بھی سرکار روزگار کی فراہمی کا کوئی ذریعہیا در نظر انداز نہیں کرسکتی ہے۔ مگر یہاں ریاست کا طبقاتی رحجان اس کے نچلے طبقے کے روزگار کے لیے پالیسی ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی مثال  ریاست کا ملک کے شہری علاقوں میں ریڑھی بانوں کے معاشی کردار کو نظر انداز کرنا، انہیں قانونی  حثیت سے محروم رکھنا اور انہیں ایک استحصالی نظام کے رحم و کرم  پر چھوڑ دینا ہے۔  جبکہ ریڑھی بانوں کی موجودگی ہمیں پاکستان تو کیا دنیا کے ہر شہر میں نظر آتی ہے۔ عالمی سطح پر  عرصہ دراز سے ترقییافتہ اور ترقی پزیر ممالک میں ریڑھی بانوں کو پالیسی فریم ورک میں باظابطہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن  قیام پاکستان کے پچھتر سال کے بعد بھی ہم ریڑھی بانوں کے لیے کوئی قومییا صوبائی سطح پر پالیسی نہ بنا سکے۔

ریڑھی بان  خواتین و حضرات ریڑھی معیشت کا لازمی جز ہیں،  جہاں کم آمدنی والے صارفین کو ارزاں قیمت پر اشیاء اور خدمات کی فراہمی، کم خواندہ اور ہنرمند  افراد کے لیے روزگار اور معاشی ترقی میں حصے داری اس کے چند مثبت پہلو ہیں۔ یہاں سوال ریڑھی معیشت کے حجم پر اٹھتا ہے۔ اب المیہیہ ہے کہ  پاکستان میں ریڑھی معیشت پر تحقیق کا شدید فقدان ہے۔ اور سرکار کے پاس بھی ریڑھی بانوں کا  مرکزی، صوبائییا شہری سطح پر کوئی ڈیٹا موجود  نہیں ہے۔  کیونکہ نہ تو ریڑھی بانوں کی کوئی بڑی سیاسی حیثیت ہے اور نہ ہی عالمی ڈونرز کے ایجنڈے میں یہ فٹ ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے حکومتی بجٹ اور پالیسیوں میں ریڑھی بانوں کا ذکر عنقا ہے اور این جی او سیکٹر بھی انہیں نظرانداز کرتا ہے۔سال ۲۰۲۱ میں پاکستان انسیٹیوٹ آف ڈیولیپمنٹ اکنامکس (پائڈ) نے ریڑھی بانوں پر ایک تحقیقاتی پروجیکٹ کے تحت  اسلام آباد کے پونے دو ہزار ریڑھی بانوں کا سروے کیا۔ اس تحقیق کے ذریعہ ریڑھی بانوں کے بارے میں بیشمار حقائق آشکار ہوئے۔ تحقیق کے اندازے کے مطابق اسلام آباد میں ریڑھی بانوں کی تعداد ۲۱ ہزار سے زائد ہے۔ان کی کل سالانہ  فروخت کا حجم ۳۰ ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ ایک ریڑھی بان اوسطََ  ۱۵ ہزار روپے ماہانہ کی ایک ورکر کی نوکری پیدا کرتا ہے۔ ۹۹ فیصد ریڑھی بان  بغیر لائسنس کے غیر قانونی طور پر کام کر رہے ہیں۔اسلام آباد میں ریڑھی بانی کا مروجہ نظام ریڑھی بانوں سے ماہانہ  کروڑوں روپوں کی غیر قانونی وصولی  پر کام کرہا ہے۔اس غیر قانونی وصولی میں پرائیویٹ پارٹیاں اور سرکاری اہلکار دونوں شامل ہیں۔  اسلام آباد کی بلدیہ سالانہ ریڑھی بانی لائسنس فیس کی مد میں فقط ۶۰ لاکھ روپے جمع کرتی ہے۔ جبکہ تحقیق کے مطابق اسلام آباد کی بلدیہ اس مد میں سالانہ  ۵۰ کروڑ روپے تک کی رقم وصول کر سکتی ہے۔

ان اعداد و شمار کی بنیاد پر ملک گیر ریڑھی معیشت کے حجم کا اندازہ لگایا گیا۔ ایک محتاط تخمینے کے مطابق پاکستان کی آٹھ کروڑ شہری آبادی میں ریڑھی بانوں  کی تعداد آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس ملک گیر ریڑھی معیشت کی سالانہ بکری۱۰۰۰ ارب روپے سے تجاوز ہے، جو کہ پاکستان کی مجوعی قومی پیداوار کا  ڈیڑھ فیصد بنتا ہے۔ ریڑھی بانوں اور ان سے منسلک ورکروں کے اہل خانہ کے افراد کی تعداد سوا کروڑ سے زائد ہے۔ یہ تعداد پاکستان کی آبادی  کا چھ فیصد ہے۔اب یہ بات تو طے ہے کہ ان ریڑی بانوں کی کثیر تعداد بغیر لائسنس غیر قانونی طور پر کام کر رہے ہیں۔ذرا سوچئے کہ اگران آٹھ لاکھ ریڑھی بانوں کو کل سے کام کرنے سے روک دیا جائے، کیونکہیہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔ پھر ملک میں کیسا سماجی ، سیاسی اور معاشی  بھونچال آئے گا، اس کا تصور بھی محال ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا  ہے کہ اگر ریڑھی بان ملکی معیشت اور تخفیف غربت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کو ہٹانے کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ تو پھر سرکار نے انہیں ایک استحصالی اور غیر قانونی نظام کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑا ہوا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے  شہروں کی خوبصورتی بھی  متاثر ہو رہی ہے اور ریڑھی بانوں کی بڑی تعداد  غربت کی سطح  سے نکل نہیں پا رہی ہے۔

ریڑھی معیشت پر پائڈ کی تحقیقی کاوشوں کو مہمیز اس وقت ملا جب  وفاقی وزارت برائے تخفیفِ غربت نے اس تحقیق کو اپناتے ہوئے اسلام آباد میں ریڑھی  بانوں پر پائلٹ پروجیکٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں وزارت نے مقامی شہری ایجنسیوں ، پائڈ اور مائیکروفنانس بنکوں کے ساتھ مل کر  اسلام آباد کے ریڑھی بانوں کو باظابطہ بنانے کا نظام وضح کیا۔اس پروگرام کے تحت اب تک اسلام آباد کی چار مارکیٹوں میں۲۲۵ ریڑھی بانوں کو نئی سولر  پینل والی جدید ریڑھیاں، وینڈنگ لائسنس اور مائیکرو فنانس قرضے فراہم کیے جا چکے ہیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے ریڑھی بانوں کی آمدنی میں سو سے دوسو فیصد تک کا  اضافہ ہوا ہے۔  بہرحال ریڑھی بانوں کا استحصالی طبقہ اس تبدیلی سے خوش نہیں ہے اور اندرونِ خانہ اس پروگرام کے خلاف اپنی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ مگر اس پروگرام کی کامیابی سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ با عزم سیاسی قیادت کسی بھی  قسم کی سرکاری مشینری کو پائدار تبدیلی  کے لیے متحرک کر سکتی ہے۔ پاکستان کے ریڑھی بان ہمیشہ سے ایک کچلا ہوا طبقہ رہا ہے، جو  اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے حلال روزی کے لیے کوشاں  رہا ہے۔ حکومتی عزم، ارادہ اور منظم کاوش ملک گیر ریڑھی معیشت کو تخفیف غربت اور سماجی بہتری کا ایک اہم ذریعہ بناسکتی ہے۔ اب  ضرورت ہے کہ اسلام آباد کے ریڑھی معیشت ماڈل کو باقی ملک کے شہری علاقوں میں رائج کیا جائے۔