زبردست معاشی ،فوجی طاقت اوروسیع تر سیاسی اثرورسوخ کے اعتبار سے امریکہ انیسویں اور بیسویں صدی میں جب ابھرکرسامنے آیا اور دنیامیں سوویت یونین اورامریکہ کے نام پر دو بلاکوں کیمونسٹ بلاک اور سرمایہ داری یا امریکی نکتہ نظر سے لیفٹ اور رائٹ بلاکوں میں بٹ گئی۔ اس کا بہر حال ایک فائد ضرور ہوا کہا دو ؓڑی طاقتوں کے آ منے سامنے کھڑے ہونے سے دنیا میں طاقت کاتوازن قائم ہوا ۔لیکن بیسویں صدی میںاواخر میںسوویت یونین کے زوال کے بعد امریکہ دنیاکی واحد سپر طاقت کے طورپر ابھر کر سامنے آیا اور دنیا پھر امریکی جھولی میں جا بیٹھی۔ تب سے سے اب تک امریکہ دنیابھر کے اندرونی معاملات میں میں کھلم کھلامداخلت کررہا ہے۔ امریکی کی اس یک طرفہ طاقت کاندازہ آپ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ دنیاکے 180 ممالک میں امریکی فوج موجود ہے ۔ان میں سے سات ممالک ایسے ہیں کہ جہاں امریکی فوجی بھرپور طریقے سے اپناکردارصحیح یاغلط طور پر اداکر رہی ہے۔ اس طرح کی وسیع نوعیت کی مداخلت سے امریکہ نے دنیاکے ہرملک کواپنے سامنے اس طرح اپنا دست نگر بنا رکھاہے کہ وہ اس کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتا۔ امریکہ کے مغربی ممالک کو وہ جس طرح و چاہتا ہے استعمال کر تاہے وہ بلاچوںوچرا اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں جس کا بھر پور مشا ہدہنیا نائن الیون کے بعد سے کر رہی ہے،یہ ممالک امریکاکاحکم بجالانے میںکوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ہیں۔ اس لئے آپ امریکہ کواس طرح سمجھ سکتے کہ پوراامریکہ اورپورایورپ دنیاکوتہہ وبالاکرنے کے حوالے سے ایک پیج پرہیںاورساری دنیاکے ممالک نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ لیکن ’’ہرکمالے رازوالے ‘‘کے مصداق امریک اب اپنی طاقت کھو رہا ہے۔ چین کے ابھرنے کے باعث اب دنیا بدل رہی ہے اوردنیامیں اب یک قطبی کی بجائے کثیر الجہتی طاقت کے ظہور سے امریکہ کی عالمی بالادستی ختم ہورہی ہے اگرچہ اس میں کچھ وقت لگے گا۔لیکن امریکہ کی بربادی اوراس کے زوال کے آثار نمودار ہو چکے ہیں اوردنیا میں امریکہ کے دھونس اور دبائو اور جارحانہ کردار پرمبنی خارجہ پالیسی پربحث کا آغاز ہو چکا ہے اورکئی ممالک میں امریکی سفاکانہ کردار پر کاٹ دار تنقید ہو رہی ہے۔ اب کھل کر کہا جا رہاہے کہ امریکہ نے اپنی فوجی مداخلتوں میں اکثر اس طرح کام کیا کہ عالمی استحکام کو برقرار رکھنے کی بجائے اسے خراب کیا ہے۔ اگرچہ امریکہ کے پاس غیر معمولی فوجی و معاشی طاقت تھی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوسرے ممالک پر اپنی مرضی چلا تابلکہ ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ انصاف سے کام لیکردنیامیں پائے جانے والے تنازعات کوحل کرتاجن میں کشمیراورفلسطین جیسے بڑے یرینہ مسائل شامل ہیںلیکن 1990ء کی دہائی میں ا پنی یعنی یک طرفہ طاقت کے باوجود امریکہ نہ صرف ایسے مسائل حل نہ کرسکابلکہ اس کے برعکس کئی آزاداورخودمختارمملک پرچڑھائی کرکے ان کے ا قتدار اعلیٰ کوتہس نہس کرکے بڑے بڑے کر بحران پیداکرکے بین الاقوامی استحکام کوبربادکردیااوراپنی چو دھراہٹ اوراپنی اجارہ داری قائم کرنے کے خناس میں مبتلاہوکراپنے آپ کورسواکردیا۔امریکہ کی اس رسوائی کو دیکھنا ہو تو افغانستان کاچپہ چپہ اس کی گواہی دے رہاہے۔ دنیامیں حل طلب مسائل کو حل کرنے کے بجائے امریکہ کے جارحانہ رویے اور غیرمنصفانہ اثر و رسوخ نے دنیاکو اندھیرنگری بناڈالا۔اسی لئے آج کئی گوشوں سے یہ آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ جو امریکہ دنیاکوامن دینے کا ضامن ہونے کا اہل نہیں رہا وہ عالمی قیادت کا اہل کیونکر ہو سکتا ہے۔ایک صدی تک اپنی طاقت اور مغربی ممالک سے فوجی اتحادوں کے بل بوتے ہلاکت خیز ہتھیاروں پر کھربوں ڈالرز خرچ کرنے والا امریکہ اب اس قابل نہیں کہ وہ اس دنیاکی قیادت کرسکے ۔ مرورزمانہ دیکھئے کہ دنیاکوتباہی کی طرف دھکیلنے والاامریکہ خوداپنے جال میں پھنساہواہے۔ امریکی نو منتخب صدرجوبائیڈن کا ملک شدید مشکلات میں پھنسا ہوا ہے۔ امریکہ کی معاشی صورتحال بہت خراب ہے۔ غربت اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ پھر چین تیزی کے ساتھ عالمی معیشت پر اپنا کنٹرول کرنے میں مصروف ہے۔ اب امریکی چودھراہٹ خطرے میں پڑ چکی ہے۔ پوری دنیا میں سرمایہ داری نظام کی چیرہ دستیوں کی بدولت بھوک اورافلاس بڑھ رہی ہے۔ امریکہ میں عالمی سرمایہ داری سسٹم کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ بلکہ سرمایہ داری نظام کا محافظ ہے۔ امریکہ کی ایک فیصد آبادی کا دنیا کی 80فیصد دولت پر قبضہ ہے۔ سرمایہ داری نظام کی وجہ سے امارات اور غربت کا فرق امریکہ اور یورپ میں بھی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ عالمی معاشی بحران امریکی صدر کو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہوگا ۔ معاشی بحران جو سونامی کی شکل اختیار کرتا ہواجنگ میں تبدیل ہوگیاہے۔ سب سے زیادہ نقصان امریکہ کے سرمایہ داری نظام کا ہو رہا ہے۔ ہوناتویہ چاہئے تھاکہ جوبائیڈن بہتر پالیسیاں دیکر دنیا میں پائے جانے والی معاشی تفریق کو کم کریں۔ مستحقین انصاف کے ساتھ کھڑے ہو کر انہیں انصاف دلا دیں اور اپنے آپ کوٹرمپ کے بجائے ایک ایسے صدرامریکہ متعارف کروائیں کہ پتا چل سکے کہ جوبائیڈن ایک انسانیت دوست صدرہیں لیکن جوبائیڈن کی طرف سے ملنے والے بلیغ اشاروں سے ایسالگ رہاہے کہ امریکہ کانشہ اس کی ضداورہٹ دھرمی اپنی جگہ قائم اور برقرارہونے کے باوصف دنیا میں غربت و افلاس میں کمی واقع ہونے کے بجائے مزیدوسیع ہو سکتی ہے اوردنیا میں امن قائم ہونے کاخواب محض خواب ہی بنارہے گا ۔ لگتا ہے کہ ان کے دور میں بھی دنیا امریکی جارحیت اوراس کے دھونس اور دبائوسے بدستورجہنم زار بنی رہے گی۔