اللہ تعالیٰ سورہ حج میں فرماتا ہے۔ "اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون پہنچتا ہے۔ البتہ تمھاری پرہیز گاری اس کے ہاں پہنچتی ہے۔" بے شک ہماری نیتوں کو وہی جاننے والا ہے۔ مگر قربانی بھی اب ایک فیشن ہی بن کر رہ گیا ہے۔ خدا کی راہ میں قربان کیا جانے والا جانور اکثریت بس اپنی ناک اونچی کرنے کے لیے لیتی ہے۔پھر کیا محلہ اور کیا عزیز و اقارب۔ لیکن اس بار مہنگائی نے ایسے لوگوں کو ناک اونچی رکھنے کا موقع کم ہی دیا ہو گا۔خدا کی پناہ۔ جانوروں کی قیمتیں سن کر ایسا لگ رہا تھا کہ بھائوتائوکسی سنار سے ہو رہا ہے۔ جب تشبیہ کسی سنار سے منسلک کر دی جائے تو سوچئے گوشت کیسے دیکھ بھال کر تقسیم ہو گا۔ قربانی اس بار بھی حسب توفیق سبھی نے کی ہوگی۔ لیکن یہ بحث ہمیشہ کی طرح اب بھی بے قابو ہے "کس کو کتنا اور کیسا گوشت بجھوایا جائے۔" چونکہ یہ سیکشن خواتین کا ہے تو اس لئے اب کون ہے جو ان کو عبور کر سکے۔لازم کر دیا گیا ہے قربانی کے تین برابر حصے ہوں گے۔برابری کا مطلب صرف وزن تک محدود نہیں۔ پورا گوشت صحیح طریقے سے یکجا کرنے کے بعد تین حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ لیکن بیشتر کا اطمینان قلب اسی میں کہ ان حصوں میں بھی کس کو بہترین، ملا جلا یا چربی کا پہاڑ بھیجنا ہے۔صاحب حیثیت لوگ سارا سال اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسلامی تہواروں میں عید، شب برات کا ہی موقع ایسا ہے جس میں غریب انسان اللہ کی نعمتوں کے ذائقے سے لطف اٹھاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ قربانی اکثریت کے لئے ایک فیشن ہے۔ ایسے لوگ اس فیشن کو صرف ان خاندانوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں جہاں سے کچھ فائدہ متوقع ہو۔ غربا کا برتن تو اس عید پر بھی خالی رہتا ہے۔ چونکہ دست سوال دراز کرتے ہوئے جھجک ان کے لہجے میں نمایاں ہوتی ہے ،اس لئے پیشہ ور بھکاری ان کے حصے میں رکھی چند بوٹیاں بھی لے اڑتے ہیں۔ عام رجحان ہے، آس پڑوس میں جہاں قربانی نہ ہوئی ہو یا کوئی تنگ دست رشتہ دار اس فریضہ سے محروم ہو ، بجائے اس کے کہ ان کو ویسا ہی گوشت بھیجا جائے جو خود کھانے میں پسند کرتے ہیں، چونکہ ان کی طرف سے بدلے میں گوشت کی بھری پلیٹ نہیں آئے گی، اس لیے ان کے لئے دو بوٹیوں کیساتھ بہت ساری چربی بھیج دی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ افسوس ناک کیا ہو گا۔ لیکن کیا کیجیے، اب تو یہ ایسی عادت بن چکی جس سے جان مشکل سے ہی چھوٹے گی۔اسلام صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیتا ہے۔ کسی ایک کو کسی دوسرے کے عمل سے کوئی تکلیفنہ پہنچے اس بات کا درس دیتا ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے قربانی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں مگر ان تمام باتوں سے قطع نظر اختیار رکھتے ہیں۔ جانور کی صفائی کے بعد گوشت آنگن میں اور تمام آلائشوں کا ڈھیر سڑکوں پر سجا دیتے ہیں۔ تعفن الگ مگر ہر گزرتے شخص کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑے شہروں میں صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ کئی روز تک الائشیں سڑکوں پر رہتی ہیں۔ خاص طور پر کراچی۔ ویسے لاہور کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں مگر کراچی کا تو بس اللہ ہی حافظ ہے۔ پچھلے سال کیا بربادی تھی۔ کئی روز تک آلائشوں کو اٹھانے کا بندوبست نہیںکیا گیا۔ باقی کا قہر کھل کر برستی بارشوں نے ڈھایا۔ قہر اس لئے کہ کراچی میں بلدیہ کے ناکام سسٹم کے بعد بارش رحمت کی بجائے زحمت ہی لگتی ہے۔اس بار بھی گھروں کے فریزر بھرے رہے۔ بار بی کیو پارٹیاں ہوئیں۔ دعوتیں اڑائی گئیں۔ہر روز ایک نئے طریقے کا سالن تیار ہوا۔بوٹیوں کی پوری ٹیم معدے میں اتاری گئی۔ اور ہاضمے کے لئے سوڈے کے ڈرم ختم ہوئے لیکن پھر بھی بد ہضمی اور تیزابیت کے ان گنت مریضوں کو ڈاکٹروں کا رخ کرنا پڑا۔ اصل حق دار اس بار بھی مایوس ہوا۔ اس بار بھی اس کا برتن خالی رہا۔ اس بار بھی چولہے پر رات کا بچا سالن گرم ہوا۔ یہ میری سوچ ہے کہ سنت ابراہیمی کو در حقیقت بچے پورا کرتے ہیں۔ بڑے تو جانور گھر لانے سے قربان کرنے تک کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ لیکن قربانی کا مفہوم کیا ہے؟کوئی ایسا جو ہمیں پیارا ہو۔ دل و جان سے عزیز ہو جس سے ہماری محبت بے تحاشا ہو اور باوجود اس کہ معصوم، بے لوث محبت ، اسے اللہ کی راہ میں قربان کر دیا جائے۔ یہ بچے ہی ہیں جو گھر لائے جانے والے جانور کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ اپنی بھوک کی پرواہ نہیں، مگر قربانی کے جانور کو چارہ، بسکٹ، نمکو اورنہ جانے کس کس شکل میں اپنا پیار اس کے معدے میں اتارتے ہیں۔ پھر چاہے اس کا ہاضمہ ہی کیوںنہ خراب ہو جائے۔ اس کا علاج بھی یہ ننھے فرشتے سوڈے کی بوتل سے نکال لیتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے دکھی دل کے ساتھ محلے بھر میں گوشت کو تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے دل میں بغض کے بیج ہوتے ہی نہیں جو یہ فیصلہ صادر کریں کہ ران کس کو ملے گی، دعوت پر کون کون بلایا جائے گا، کس کے گھر چربی اور کس گھر گوشت جائے گا۔ یہ تو ہر آنے والے کو اپنے دکھی دل کا فسانہ سناتے ہیں اور دروازے کی ہر دستک پر کوشش کرتے ہیں کہ کوئی غریب خالی نہ لوٹے۔ ان بچوں کے بس میں ہو تو کسی سفید پوش اور غریب کا برتن خالینہ رہے۔ضروری نہیں ہمیشہ بڑوں کی تقلید کی جائے کچھ عمل ایسے ہیں جن میں بچے ہم بڑوں پر سبقت رکھتے ہیں۔ تو کیوں نہ ان معاملات میں ان کی پیروی کی جائے۔ یاد رکھیے!اللہ تعالٰی سورہ حج میں فرماتا ہے۔ ’’اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون پہنچتا ہے۔ البتہ تمھاری پرہیز گاری اس کے ہاں پہنچتی ہے۔"